ہزاروں فلسطینی اس وقت فرئضہ حج کی ادائی کے لیے حجاز مقدس روانہ ہونے کی تیاری کررہےہیں۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے حج کے شعبے میں منظم کرپشن اور بدعنوانی کی خبروں نے کئی نئے سوالات جنم دیے ہیں۔ حج فیس کی وصولی کے طریقہ کار ، شفافیت کے فقدان اور فلسطینی اتھارٹی کی وزارت اوقاف کی ہربار کی طرح حجاج کے امور میں مجرمانہ غفلت نے حج جیسی مقدس عبادت کو بھی مشکوک بنا دیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حج کے لیے امیدواروں کا فیصلہ قرعہ اندازی سے کیاجاتا ہے مگر مرکزاطلاعات فلسطین کو با خبر ذرائع سے پتا چلا ہے کہ بہت سے افراد کا نام بغیر کسی قسم کی قعہ اندازی کے عازمین حج میں شامل کیا گیا۔ اسی طرح بہت سے امیدواروں کو قرعہ اندازی میں شامل کیے بغیر ہی گھروں کو واپس بھیج دیا گیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے سیکرٹری اوقاف حسام ابو الرب نے چند روز پیشتر ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ 250 عازمین حج قرعہ اندازی کے بغیر حج کےلیے جانے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
حسام ابو الرب سے سوال کیا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کے بعض وزراء اور دیگر سینیر عہدیدار بھی حج کرنے والوں میں شامل ہیں مگر ان کے نام قرعہ اندازی کے ذریعے فائنل نہیں کیے گئے۔ اس پرانہوں نے کہا کہ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے ہوتا رہا ہے۔
ابو الرب کا کہنا تھا کہ دو قسم کے افراد حجاج کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں ایک وہ جو ذاتی اخراجات کی بنیاد پرحج کے لیے جا رہا ہے اور باقی عازمین کی طرح پوری رقم ادا کرتا ہے۔ دوسرے وہ جو حج کمیشن کو فیس ادا کرنے کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعے اس میں شامل ہوتے ہیں۔
حج کی قیمت پر سیکیورٹی مشن
فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداروں نے بتایا کہ ہرسال پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے 50 اہلکاروں کو حج کوٹے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان میں سے 30 حج کے لیے اور باقی سعودیہ میں سیکیورٹی کے فرائض کی انجام دہی کے لیے جاتے ہیں مگرانہیں حج کی بھی اجازت ہوتی ہے۔
ابوالرب سے پوچھا گیا کہ اگر فلسطینی پولیس کے20 اہلکار سیکیورٹی مشن پر جاتے ہیں توانہیں حج کی فہرست سے کیوں نکالا جاتا ہے تو ان کاکہنا تھا کہ یہ معمول کی بات ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کے اہلکار ہی نہیں بلکہ مختلف وزارتوں میں حج کا کوٹہ مختص ہے۔ ان کی حج فیس جوکہ 2570 اردنی دینار ہے سرکاری سطح پر ادا کی جاتی ہے۔
مانیٹرنگ کمیشن کی نشاندہی
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کے مطابق ہرسال کروڑوں شیکل کی رقم حج فنڈ میں جمع کی جاتی ہے مگر حج فنڈ میں کرپشن عام ہے اور کسی قسم کی جانچ پڑتال اور نگرانی نہیں کی جاتی۔ فلسطینی اتھارٹی کے انتظامی اور مالیاتی نگرانی کے ذمہ دار ادارے کی طرف سے بہت پہلے اس کی نشاندہی کردی تھی۔
فلسطینی اتھارٹی کل عازمین حج کے 18 فی صدر افراد کو اپنی مرضی سے حج کے لیے مختص کرتی ہے۔ اس بار ان کی تعداد 742 تگئ۔ انہیں مختلف وزارتوں اور سرکاری محکموں کی طرف سے چنا جاتا ہے مگر ان کی نامزدگی کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حج کے لیے جانے والے 26 افراد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ان کا نام عازمین حج کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ 516 کے حج کے اخراجات فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ادا کیے گئے ہیں۔