فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے ہرآنے والا دن زیادہ مشکل اور کٹھن ہوتا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی جان ومال ، عزت وآبر اور گھر بار سب دائو پرلگے ہوئے ہیں۔ مگر ان تمام ترمصائب ومشکلات کے باوجود فلسطینی قوم فولادی عزم کے ساتھ صہیونیوں کے اس مجرمانہ طرز عمل اور طوفان کے سامنے کھڑے ہیں۔
جزیرہ نما النقب کے علاقے الراس الاحمر کے فلسطینی باشندوں کو العراقیب گائوں کے باشندوں کی طرح آئے روز گھراور مکانات مسماری کے طوفان کاسامنا ہے۔ غرب اردن کے شمالی شہر طوباس کے نواحی علاقے الراس الاحمر کے فلسطینی باشندے بھی عزم استقامت اور استقلال کا پہاڑ ہیں جو بار بار اپنے گھر دوبارہ تعمیر کرتے اور بار بارمسماری کا مقابلہ کرتے ہیں۔
الراس الاحمر کے ایک مقامی فلسطینی ایمن بنی عودہ بھی متاثرین میں شامل ہیں جن کے گھر اور ان میں موجود سامان سب کچھ باربار تلف کردیا جاتا ہے مگر وہ الراس الاحمر کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
بنی عودہ کا گھر حال ہی میں مسمار کیا گیا۔ انہیں گھرمیں موجود سامان تک باہر نکالنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اسرائیلی ریاست کے بلڈوزروں کی طرف سے باربار مکان کی مسماری نے بنی عودہ کا جذبہ استقامت کو مزید پختہ کردیا ہے۔
وہ اپنی اہلیہ اور آٹھ بچوں بچیوں کے ہمراہ اپنے مکان کے ملبے پر کھڑے مجسم غم ہیں مگر اس ظلم کا بار بار سامنا کرنے کےباوجود وہ الراس الاحمر کو غاصب صہیونیوں کو دینے پرتیار نہیں ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بنی عودہ نے کہا کہ اگرچہ شدید گرمی اور دھوپ میں کھڑے رہنے سے میری اور میرے بیوی بچوں کی حالت غیر ہورہی ہے مگرہم الراس الاحمر پرصہیونیوں کا قبضہ قبول نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ الراس الاحمر میں فلسطینی عرب بدو قبائل رہائش پذیر ہیں اور اسرائیل درجنوں فلسطینی دیہاتوں جن میں الراس الاحمر بھی شامل ہے کو غیرقانونی قرار دیتا ہے اور ان کے باشندوں کو وہاں سے بار بار بے دخل کرنے کی مجرمانہ حکمت عملی جاری ہے۔
بنی عودہ اور اس کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس سے قبل العراقیب اور الخان الاحمر میں ہوچکا ہے۔
بنی عودہ نے اپنے سات سالہ بچے ولید جہاد بنی عودہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچے بھی صہیونی دشمن کےغیض وغضب کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کررہےہیں۔ صہیونی فوج نے ان بچوں کو رات کے آخری پہر سوتے میں جگایا اور ہم سب کو گھر دھکے دے کر نکال دیا گیا۔ اس کے بعد ہمارا مکان سامان سمیت ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔
جرات مندانہ استقامت
بنی عودہ اپنی والدہ کے ہمراہ مکان کے ملبے پر کھڑا اپنے بچوں کی دل جوئی کررہا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارا مقابلہ صہیونی دشمن کے ساتھ ہے جو بار بار ہمارے عزم اور استقامت کا امتحان لے رہا ہے۔ ہم اس میدان میں شکست کھانے والے ہرگز نہیں ہیں۔ ہم ہرمصیبت گوارا کرلیں گے مگر صہیونی دشمن کے سامنے گھںٹے نہیں ٹیکیں گے۔
فلسطینی سماجی کارکن خالد منصور نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کےگھروں کی مسماری کا مجرمانہ طرز عمل کئی سال سے جاری ہے۔ صہیونی ریاست کے پاس فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا کوئی آئینی، اخلاقی اور سیاسی جواز نہیں۔ یہ کھلم کھلا نسل پرستی ہے۔ فلسطینی عرب باشندوں کے مکانات مسمار کیے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ پر یہودیوں کےلیے گھروں کی تعمیر جاری ہے۔ انہوں نے راس الاحمر کے فلسطینی باشندوں کی ہمت، حوصلے، استقامت اور بہادری کو بے مثال قراردیتے ہوئے اپنے وطن کی مٹی سے جڑے رہنے کے جذبے کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ الراس الاحمر کے فلسطینی عرب شہری کسی بھی قیمت میں نقل مکانی نہیں کریں گے۔ صہیونی دشمن بار بار ان کے گھروں کو گرا کران کےعزم کو شکست دینا چاہتا ہے مگر بزدل دشمن اپنی اس سازش میں کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوگا۔
فلسطینی تجزیہ نگار معتز بشارات کا کہنا ہے کہ الراس الاحمر کے فلسطینی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کا مقصد وادی اردن پر غاصب صہیونی ریاست کا قبضہ مستحکم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الراس الاحمر میں بسنے والے فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار سے زاید ہے اور آئے روز انہیں گھروں کی مسماری کے مجرمانہ طرز عمل کا سامنا ہے۔