جمعه 15/نوامبر/2024

‘باری باری گرفتاری’ اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون کی بدترین شکل!

جمعہ 2-اگست-2019

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمودعباس کی طرف سے بار بار اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون سمیت دیگر شعبوں میں مکمل بائیکاٹ کے اعلان کے علی الرغم فلسطینیوں کی بلا جواز گرفتاریاں جاری ہیں۔ یہ گرفتاریاں صہیونی ریاست کے ساتھ سیکیورٹی اور فوجی تعاون کی بدترین شکل ہیں کیونکہ صہیونی فوج اور عباس ملیشیا نے معصوم فلسطینی شہریوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے باریاں مقرر کررکھی ہیں۔

حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کی جیل سے تین فلسطینیوں کو رہا کیا گیا۔ عباس ملیشیا کی قید سے رہائی کے صرف چار روز بعد اسرائیلی فوج نے ان تینوں فلسطینیوں کو حراست میں لے کرپابند سلاسل کردیا۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہ تینوں فلسطینی غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے یاسر مناع، مروانم استیتہ اور بیت دجن کے معاویہ حنینی کو مسلسل 45 دن تک فلسطینی اتھارٹی کی قید میں رہے۔

فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں نے یکے بعد دیگر فلسطینیوں کی  اسرائیلی فوج اور عباس ملیشیا کے ہاتھوں گرفتاریوں کو’باری باری گرفتاری’ کی پالیسی قرار دیا ہے۔ فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی کارکنوں کی طرف سے فلسطینیوں کی باری بار گرفتاری کو سیکیورٹی تعاون کی بدترین شکل قرار دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان جاری سیکیورٹی چکی کے دو پاٹ ہیں جن کے درمیان پسنےوالے بے گناہ فلسطینی ہیں۔

گذشتہ کئی ہفتوں سے عباس ملیشیا نے قرآن پاک کی ایک معلمہ آلاء بشیر کوحراست میں لینے کے بعد غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا۔ تقریبا اڑھائی ماہ تک پابند سلاسل رکھنے کے بعد جب اسے عباس ملیشیا کی قید سے رہا کیا گیا تو اسے صہیونی فوج نے حراست میں لے لیا۔

سیکیورٹی تعاون کی بدترین شکل

فلسطینی مجلس قانون ساز کے ڈپٹی اسپیکر حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کے ہاتھوں نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بعد چھڑنے والی بحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سیاسی اختلاف رائے رکھنے والوں اور آزادی اظہار رائے کا حق استعمال کرنے والوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا رہی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے حسن خریشہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کی قید سے رہائی کے بعد اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو اٹھا کر قید خانوں میں ڈال دیتی ہے۔ اسی طرح اسرائیلی جیل سے رہائی پانے والے کارکنوں کو عباس ملیشیا اٹھا لیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کے قول وفعل میں کھلا تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک طرف صدر عباس اور رام اللہ اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون سمیت دیگر تمام معاہدے منسوخ کرنے کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف صہیونی دشمن کے ساتھ اپنی ہی عوام کے خلاف مجرمانہ سیکیورٹی تعاون کی مرتکب ہو رہی ہے۔

حسن خریشہ نے فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم محمد اشتیہ نے ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ سیاسی گرفتاریوں کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح کے بیانات صرف عدالتی اور انسانی حقوق کے اداروں میں بلا جواز گرفتاریوں کو جواز دینے کی کوشش ہے۔

باری باری کی سیاست

فلسطینی تجزیہ نگار ایمن الرفاتی کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اوراسرائیل کے درمیان باری باری گرفتاری کی پالیسی کوئی نئی نہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی فوج دونوں فلسطینیوں کے تعاقب میں رہتی ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ یہ تماشا صدر عباس کی طرف اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کے باوجود جاری ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئےالرفاتی نے کہا کہ غرب اردن میں عباس ملیشیا جو کچھ کررہی ہے وہ کھلے عام اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون کا تسلسل ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی پالیسی قضیہ فلسطین کے لیے سنگین خطرے کا موجب ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی کے شعبے میں اعلیٰ سطح پر تعاون ہو رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی فوج دونوں مل کر غرب اردن کے علاقوں میں فلسطینی مزحمت کو کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔ دونوں کا ہدف ایک ہی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی