حال ہی میں اسرائیلی فوج نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم بیرزیت یونیورسٹی پر چھاہے کے دوران ایک نوجوان فلسطینی طالب علم اسامہ حازم الفاخوری کو حراست میں لینے کےبعد پابند سلاسل کیا تو ایک بار پھر فلسطینی عوامی حلقوں میں صہیونی ریاست کے خلاف نفرت اور غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی فوجیوںنے ڈھٹائی اور ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیرزیت یوبیورسٹی کے ممتاز نمبروں کے ساتھ امتحانات میں کامیاب ہونے والے طالب علم اسامہ الفاخوری کو جمعرات 11 جولائی کو اس کے سات دیگر ساتھیوں سمیت حراست میں لیا
اسامہ الفاخوری اگرچہ صہیونی ریاست کا نشانہ انتقام بننے والا پہلا فلسطینی طالب علم نہیں مگراس کی کہانی تھوڑی مختلف ہے۔ اسامہ الفاخوری اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے۔ اس کی والدہ لمیٰ خاطر فلسطینی حلقوں میں ایک مشہور قلم کار، سماجی کارکن اور اسرائیلی ریاست کے خلاف متحرک سماجی کارکن ہیں۔
کچھ عرصہ قبل جب لمیٰ خطر اسرائیلی زندانوںمیں قید تھیں تو صہیونی انٹیلی جنس حکام نے اسے دھمکی دی تھی کہ بہت جلد اس کی جگہ اس کا بیٹا اسامہ الفاخوری بھی قید ہوگا۔
تفتیش اور حراست میں توسیع
اسامہ الفاخوری کے والد حازم الفاخوری نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قابض صہیونی حکام نے اس کے بیٹے کی حراست میں مزید توسیع کردی ہے۔ اسے بدترین جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
حازم الفاخوری کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد سے اب تک اس کے بیٹے کو اپنے وکیل کا گھر کے کسی دوسرے فرد کےساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسے جامعہ بیرزیت سے حراست میں لیا گیا۔ اس کے ساتھ اس کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی ضبط کرلیے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ اس کےسات دوسرے ساتھیوں کے موبائل فون اور کمپیوٹر بھی قبضے میں لیے گئے۔ ان کی گرفتاری آدھی رات کوعمل میں لائی گئی اور گرفتاری کے وقت بھی انہیں غیرمعمولی طورپر ہراساں کیا گیا۔ انہیں جسمانی اور ذہنی اذیت دی گئی اور حراست مرکز میں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں حازم الفاخوری نے بتایا کہ اس کے بیٹے کا کوئی قصور نہیں۔ اسے صرف اس لیے حراست میں لیا گیا کہ وہ یونیورسٹی میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ کامیابیوں کے زینے طے کررہا ہے۔ اس نے کئی مقامی اور عالمی مقابلوںمیں حصہ لیا اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں اپنے مہارت کا لوہا منوایا ہے۔ اسرائیلی فوج اسے حراست میں لے کر اس کے علمی سفر کو کھوٹا کرنا چاہتی اور اسے منزل سے دور کرنا چاہتی ہے۔
اسامہ کی ماں کو دھمکی
فلسطین کی معروف کالم نگار اور سماجی کارکن لمیٰ خاطر نے بتایا کہ صہیونی حکام نے اس کے بیٹے کو 27 جولائی کو رہا کرنے کا کہا ہے مگر اسے یقین نہیں کہ صہیونی اپنے وعدے پور عمل کریںگے۔
انہوںنے کہا کہ میرے بیٹے کی گرفتاری کا تعلق مجھے دی گئی ایک دھمکی کے ساتھ ہے۔ کچھ عرصہ قبل صہیونی فوجی تفتیش کار نے مجھے دھمکی دی تھی کہ تمہارا بیٹا اسامہ ایک دن تمہاری جگہ یہاں قید ہوگا۔
انہوںنے کہا کہ صہیونیوں نے میرے بیٹے کو صرف اس لیے گرفتار کیاکہ وہ میرے نقش قدم پرچل کر علم کے میدان میں اپنا نام روشن کرنا چاہتا ہے۔ اسامہ الفاخوری نہ صرف علمی میدان میں ممتاز مقام حاصل کررہا ہے بلکہ وہ حسن اخلاق کا پیکر، حافظ قرآن پاک اور قبلہ اول اور فلسطینی ملک وقوم سے محبت کرنے والا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی ادارے بھی اسامہ کے تعاقب میں لگے رہتے ہیں۔ اسے متعدد بار حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔