بعض عرب حکومتوں بالخصوص خلیجی ممالک تیزی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی دوڑ میں مگن ہیں۔ ان ملکوں نے اس حقیقت فراموش کر دیا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جو فلسطینیوں اور عربوں کی لاشوں، ان کے حقوق غصب کرنے اور 70 برسوں سے مظالم کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان عرب ملکوں کی حکومتوں اور ان کی عوام کے موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسرائیلی ریاست سے دوستی کی خواہاں طاقتیں اپنی عوام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ اسرائیل خطے میں کی ایک حقیقت ہے اور اسے جغرافیائی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔
دو قابل ذکر واقعات
حال ہی میں جب امریکا کی دعوت پر خلیجی ریاست بحرین کے دارالحکومت مناما میں نام نہاد اقتصادی کانفرنس کا ناٹک رچایا گیا تو اس سے قبل دو ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے اسرائیل۔ عرب دوستی کی کوششوں کو ایک بار پھر واضح کر دیا۔ جب فلسطین کی ‘بحرین ورکشاپ’ کے نام سے نیلامی کی سازش تیار کی جا رہی تھی تو اس دوران یہ خبر آئی کہ اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاٹز نے متحدہ عرب امارات کا خفیہ دورہ کیا۔ اسرائیلی وزیر کو ابو ظبی کی مسجد الشیخ زاید میں دیکھا جاسکتا ہے۔
دوسرا واقعہ موساد کے چیف یوسی کوھین کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اردن اور مصر کے ساتھ تزویراتی معاہدے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے دائرے میں شامل ہونے والوں میں کئی دوسرے عرب ممالک بھی شریک ہیں۔ ان عرب ملکوں اور اسرائیل کے درمیان کھلے عام رابطے ہو رہے ہیں۔
بحرین ورکشاپ
مذکورہ دونوں واقعات کو ‘بحرین ورکشاپ’ سے الگ کرنے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ یہ دونوں واقعات منامہ کانفرنس ہی کے سیاق میں آئے ہیں۔
عبرانی اخبار ‘ہارٹز’ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ‘عرب ۔ اسرائیل تعلقات کی علامات زیادہ واضح انداز میں سامنے آ رہی ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی باتیں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب خلیجی ممالک کے ذرائع ابلاغ کا قضیہ فلسطین کے خلاف جارحانہ رویہ مزید بڑھ گیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بحرین ورکشاپ صہیونی ریاست اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی خشت اول ہے۔ اس کے بعد عرب ملکوں کی اسرائیل کے ساتھ دوستی ٹرین تیزی کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ ان عرب ملکوں کو فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے مطالبے کے حوالے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ عرب ۔ اسرائیل دوستی فلسطینیوں کے ساتھ امن بات چیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بحرین کانفرنس میں بہ ظاہر فلسطینیوں کے اقتصادی مسائل پر بات چیت کی گئی مگر درپردہ یہ کانفرنس اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کے عملی آغاز کی طرف اہم پیش رفت ہے۔
اسرائیلی فخر کے ساتھ یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ بحرین کانفرنس نے خطے کے ایک اہم راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ خلیجی اور عرب ممالک اسرائیل کے معاملے میں اب ماضی کی پالیسی سے ہٹ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ فلسطینیوں نے منامہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا مگر دوسری طرف اس کانفرنس میں شریک عرب اور اسرائیلی تاجروں، سینیر عہدیداروں ، فوجی جرنیلوں اور صحافیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرے ہوئے۔
اسرائیل اور خلیجی ممالک میں قربت کے اسباب
اسرائیل سے دوستی کے خلاف سرگرم فلسطین سینٹر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور خلیجی ملکوں کے درمیان قربت کے متعدد عوامل ہیں۔
امریکی انتظامیہ جس کی نمائندگی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں کے خلیجی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو ایسی خدمات فراہم کیں جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا اور تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کی مخالفت کی۔
دوسرا محرک ایران ہے۔ خلیجی ممالک ایران کو شریر دشمن تصور کرتے ہیں۔ اس لیے وہ امریکا کو ایران کے مقابلے میں لانے کے لیے امریکا کے ہر جائز اور ناجائز مطالبے کو تسلیم کر رہے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کی قربت دراصل امریکا ہی کا اصرار ہے۔ امریکا خلیجی ممالک کو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے بدلے میں ان کے اقتدار کی بقاء کی ضمانت فراہم کر رہا ہے۔
اسرائیل اور خلیجی ملکوں کے درمیان قربت کا ایک اہم محرک خطے کے مسلمان ممالک کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ہیں۔ سعودی عرب، ترکی، ایران اور شام کے مابین پائے جانے والے اختلافات کے ساتھ خود خلیجی ممالک قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات الگ الگ مقامات پر کھڑے ہیں۔ یمن میں جاری کشمکش بھی عرب ملکوں میں نزاع کا سبب ہے۔ کھیل، میڈیا اور معیشت ایسے شعبے ہیں جن میں عرب ممالک تقسیم ہیں۔
بعض خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ قربت میں عجلت کا مظاہرہ کر کے صہیونی ریاست کو سیاسی، اقتصادی اور ابلاغی فواید فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ممالک اپنی عوام کو باور کرا رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی روابط کے بہت زیادہ فواید ہیں۔ اگر عرب ممالک اپنے پروگرام میں ناکام رہتے ہیں تو وہ ان فواید سے محروم ہوجائیں گے۔