حالیہ عرصے کے دوران ایک طرف عرب حکمران اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے امریکی اور صہیونی لابی کی وفاداری کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے لپکے چلے جا رہے ہیں تو دوسری طرف عرب اقوام اور ان کی اصل روح نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
اس وقت حقیقی معنوں میں عرب حکمرانوں اور ان کی اقوام کے درمیان اسرائیل کو تسلیم کرنے اور نہ کرنے کا مقابلہ ہے۔ ایک طرف عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ دوستی کےلیے کانفرنسیں منعقد کررہے ہیں اور دوسری طرف عوامی سطح پر صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے خلاف سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس نکالے جا رہے ہیں۔
لبنان میں قائم اسٹریٹجک اسٹڈی سینٹر کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے تنازع کے جوہری مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن لچک دکھائی گئی مگر دوسری طرف صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کی انتہائی معمولی تجاویز بھی مسترد کر دیں۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو کم زور کرنے اور اس کے اداروں کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔
التبہ فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کو یہ استثنیٰ حاصل رہا ہے کہ حماس نے صہیونی ریاست کے ساتھ ہرطرحکے تعلقات کے خلاف آواز بلند کی۔ حماس اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنے کو پوری مسلم امہ کے ساتھ خیانت سے تعبیر کرتی اور عالم اسلام کے اخلاقی اصول اور آفاقی اقدار کے خلاف ہونے کے ساتھ فلسطینی قوم کی قربانیوں کے ساتھ غداری اور دھوکہ قرار دیتی ہے۔ حال ہی میں حماس کے بیرون ملک امور کے سربراہ ماھر صلاح کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔
عرب ممالک کا سرکاری موقف اور ان کی عوام کا موقف الگ الگ ہے۔ تین عرب ممالک مصر، اردن اور موریتانیہ پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ فلسطین میں دوسری تحریک انتفاضہ کے بعد افریقی ملکوں مراکش اور تیونس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کر دیئے تھے۔
جہاں تک عرب ممالک کی عوام کا تعلق ہے تو عوام الناس کا موقف واضح ہے۔ اس کا اظہار عرب ممالک میں اسرائیل کے ساتھ دوستی کے خلاف ہونے والے بڑے بڑے مظاہروں اور جلوسوں سے لیا جا سکتا ہے۔ تیونس کی جنرل فیڈریشن برائے لیبر کے چیئرمین سامی الطاھری نے ملک کی تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموںپر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کو’جرم’ قرار دینے کے لیے قانون سازی کریں۔
کویت کی مجلس الامۃ نے بھی فلسطینی قوم کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنے کی تمام کوششوں کو مسترد کر دیا۔ کویت کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست جس کے ہاتھ نہتے فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ دوستی کا کیسے مستحق ہوسکتا ہے۔
بحرینی عوام کا موقف
بحرین کی پارلیمنٹ کے سابق رکن جلال فیروز کا کہنا ہے کہ بحرینی عوام اور حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی مہم میں الگ الگ ہیں۔ عوام نے صہیونیوں کے ساتھ دوستی کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ارض بحرین کی بے حرمتی کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے خلاف عالمی اتحاد تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ صدی کی ڈیل اور دیگر عالمی صہیونی ۔ امریکی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
لندن میں مقیم جلال فیروز نے کہا کہ بحرین کی تمام سیاسی قوتوں حتیٰ کہ حکومت کی مقرب سیاسی جماعتوں نے بھی مناما اقتصادی کانفرنس کو بحرینی قوم کے لیے باعث عار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینی قوم کے خلاف جاری عالمی ، امریکی اور صہیونی شیطانی چالوں کو ناکام بنانے کے جواب دہ ہیں۔ ہمیں عالمی سازشوں کو مل کر ناکام بنانا چاہیے۔
ادھر کویت میں القدس یوتھ رابطہ گروپ کے چیئرمین طارق الشائع نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک کا بحرین کانفرنس میں شرکت کرنا فلسطینی قوم کو فروخت کرنے کے مترادف ہے۔ الشائع نے مزید کہا کہ بحرین اقتصادی ورکشاپ اور صدی کی ڈیل عرب حکومتوں کے لیے باعث عار ہیں۔ عرب اقوام آزاد ہیں اور وہ اس طرح کی سازشوں اور حکومتوں کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔
انہوں نے نصرت القدس اور نصرت قضیہ فلسطین کے لیے کوششیں کرنے پر زور دیا اور کہا کہ بحرین کانفرنس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
عوامی مہمات
کویت کی سماجی اصلاح آرگنائزیشن کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کی گئی جس میں نصرت الاقصیٰ اور نصر القدس کی ترغیب دی گئی۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ‘ٹویٹر’ اور فیس بک پر فلسطینیوں کی حمایت اور قضیہ فلسطین کے دفاع کی جاندار مہمات ایک ایسے وقت میں چلائی گئیں جب دوسری جانب عرب ممالک کی حکومتیں قضیہ فلسطین کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہیں۔
کویت نے سرکاری سطح پر منامہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ کویت کا موقف ہے کہ فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کو نظرانداز کر کےاسرائیل کے ساتھ دوستی صہیونی دشمن کے جرائم کے دفاع کے مترادف ہے۔
تجزیہ نگار ایاد القرا کا کہنا ہے کہ بحرین کانفرنس میں عرب حکمرانوں کی شرکت کے بعد عرب اقوام کی طرف سے سخت دبائو سامنے آیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے القرا نے کہا کہ خائن عرب ممالک قضیہ فلسطین کو ڈالروں کے عوض فروخت کرنا چاہتے ہیں۔