شنبه 10/می/2025

محمد عبید شہید ۔۔۔ مسجد اقصیٰ کا سچا عاشق!

پیر 1-جولائی-2019

قبلہ اول کے لیے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے فلسطینیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس فہرست میں تازہ اضافہ گذشتہ جمعرات کے روز 20 سالہ محمد سمیر عبید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے کیا ہے۔ محمد عبید کی عمر اگرچہ ابھی بہت کم تھی مگر بیس سال کی عمر میں وہ قبلہ اول کے ایک نوخیز مرابط کے طور پر اپنی پہچان کرا چکا تھا۔ وہ  قبلہ اول کا سچا عاشق تھا جو دن اور رات ہر وقت دفاع قبلہ اول کے لیے سوچتا۔

اس کے الفاظ جن میں وہ قبلہ اول کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کا اظہار کرتا ہے ایمان تازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ کہتا کہ ‘میرا بچپن اور اب لڑکپن سب قبلہ اول پر فدا ہوئے ہیں۔ میری وہی زندگی خوبصورت ہے جو قبلہ اول کے لیے گذری، وہی پاکیزہ ہے جو دفاع قبلہ اول میں بسر ہوئی۔ مسجد اقصیٰ کے ساتھ محبت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اصل زندگی یہی ہے کہ میں قبلہ اول کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کردوں۔ یہ میری اصل کامیابی ہوگی’۔

محمد سمیر عبید نے کم سنی کی عمر میں قبلہ اول کے ساتھ اپنا تعلق قائم کیا۔ قبلہ اول سے محبت کی پاداش میں 4 سال صہیونی زندانوں میں گذار دیے۔ صرف عبید نہیں بلکہ اس کا پورا خاندان قبلہ اول سے تعلق اور اس کے ساتھ عشق و محبت کی پاداش میں صہیونی ریاست کے جبرو ستم کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی ہمشیرہ سندس بھی اسرائیلی زندانوں میں قید وبند کی صعوبتیں کاٹ چکی ہے۔ اسے ماہ صیام کے آخر میں حراست میں لیا گیا تھا۔ بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔ عبید کے والد بھی اسرائیلی زندانوں میں قید رہ چکے ہیں۔

محمد عبید کو گذشتہ جمعرات کو اسرائیلی فوجیوں‌ نے العیساویہ کے مقام پر گولیاں مار کر شہید کر دیا۔

القدس کی سرگرم فلسطینی سماجی کارکن خدیجہ خویص نے شہید عبید کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ شہید محمد عبید ایک وجیہ اور خوش اخلاق نوجوان تھا۔ قبلہ اول کی آزادی کی تڑپ اسے ہمیشہ متحرک رکھتی۔ اللہ نے اس قیمتی نوجوان کو اپنے پاس بلا لیا۔

عبید کے قریبی عزیز ناصرعبید کا کہنا ہے کہ قابض صہیونی فوجیوں‌ نے العیساویہ میں محمد عبید کو شہید کرنے کے سے قبل مقامی فلسطینی آبادی کا دو ہفتوں سے جینا حرام کر رکھا ہے۔ قابض صہیونی فوجی اور پولیس اہلکار فلسطینی شہریوں کے گھروں‌ پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں اور نوجوانوں کو بغیر کسی جرم کے اٹھا کر حراستی مراکز میں لے جاتے اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

ماورائے عدالت قتل

العیساویہ کے عمر عطیہ نے محمد عبید سمیر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب قابض پولیس اہلکار نے عبید پر گولیاں چلائیں تو وہ اس وقت دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کا عینی شاہد ہے۔ اسرائیلی پولیس اہلکار نے عبید کو انتہائی قریب سے پستول سےاس کے سینے میں گولیاں ماریں۔

عمرعطیہ نے بتایا کہ صہیونی دہشت گرد اہلکار نے عبید کو دانستہ طور پر فائرنگ کا نشانہ بنا کر شہید کیا۔ اس کے سینے میںایسے گولی ماری گئی کہ گولی اس کے دل میں اتر گئی۔

جیسے ہی  عبید کی شہادت کی خبر ملی تو فلسطینی شہری غم وغصے کی حالت میں گھروں سے نکل کر احتجاج کرتے سڑکوں‌ پر نکل آئے۔ انہوں‌نے العیساویہ میں ایک پبلک مرکز کو نذرآتش کر دیا۔ یہ مرکز اسرائیلی بلدیہ کے زیراہتمام قائم کیا گیا تھا۔ فلسطینیوں‌ نے یہودی آباد کاروں‌پر سنگ باری کی۔ الطور، وادی الجوز اور الصوانہ کے مقامات پر فلسطینیوں‌ نے احتجاجی مظاہرے کیے اور جلوس نکالے۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ کریک‌ ڈائون اور پر تشدد حربوں کا استعمال شروع کر دیا جس کے نتیجے میں 80 فلسطینی زخمی اور 20 حراست میں لیے جا چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں‌ نے محمد عبید سمیر کی شہادت کو اسرائیلی فوج کی ریاستی  دہشت گردی اور ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔

مختصر لنک:

کاپی