ارض فلسطین پرقابض اور غاصب صہیونی یہ دعویٰکرتے ہیں کہ سرزمین فلسطین ان کی صدیوں سے ملکیت ہے اور وہی اس کے حقیقی وارث ہیں مگر زمینی حقائق صہیونیوں کے اس دعوے کی بار بار تردید کرتے ہیں۔ صہیونیوں کے اس جھوٹ اور دروغ گوئی کی ویسے تو ان گنت مثالی موجود ہیں مگر حال ہی میں سامنےآنے والے ایک واقعے نے صہیونی ریاست کے اس فراڈ کا ایسا پول کھولا کہ خود صہیونی بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔
چونکہ صہیونی برسوں سے فلسطین پرطاقت اور جبروت کے ذریعے اپنا قبضہ مسلط کرانے میں سرگرم ہیں، اس لیے وہ آج بھی وہی مکروہ حربے استعمال کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکا بھی صہیونیوں کے اس توسیع پسندانہ اور غاصبانہ عمل میں ان کی مکمل پشت پناہی کررہا ہے۔ صدی کی ڈیل اس کا تازہ منصوبہ ہے جو ماضی میں اسرائیل کے حوالے سے کسی بھی امریکی منصوبے کی نسبت زیادہ خطرناک اور نتائج کے اعتبار سے انتہائی خوناک ہے۔
امریکا کے صدی کی ڈیل منصوبے کی گونج میں فلسطین میں ‘سیوریج کے ڈھکن کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے جس نے صہیونیوں کی فلسطین پرقبض کی اصلیت کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔
سیوریج لائن کا ڈھکن
حال ہی میں شمالی فلسطین کے شہر حیفا سے پرانے دور میں سیوریج لائن کے لیے بنائے گئے’مین ہول’ پر لگا ایک ڈھکن ملا ہے جس پر لکھے الفاظ صہیونیوں کے فلسطین پرملکیت کے دعوےکی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
سنہ 1948ء سے قبل اوراس کے بعد بھی بڑی تعداد میں ایسےڈھکن موجود رہے جن پر پرانی فلسطینی مملکت کا حوالہ اور تاریخ بھی درج تھی۔ حیفا سے ملنےوالےسیوریج مین ہول کےڈھکن پر ‘بلدیہ حیفا، مملکت فلسطین کے انگریزی میں الفاظ درج ہیں۔
ایک دوسرا ایسا ہی ڈھکن یافا شہر سے ملا جس مملکت فلسطین، یافا بلدیہ اور اس ڈھکن کی تیاری کی تاریخ بھی درج ہے جو برطانوی دور میں بنایا گیا تھا۔ ان ڈھکنوں پرکہیں بھی صہیونی ریاست، اسرائیل یا عبرانی ریاست کے الفاظ درج نہیں۔
ان ڈھکنوں کی تصاویر سوشل میڈیا پروائرل ہونے کے بعد جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ عربوں حتیٰ کہ یورپیوں اور امریکیوں تک بھی ان پرتبصرے کیے گئے۔ سب نے یہ تسلیم کیا کہ ارض فلسطین پر صہیونیوں کی ملکیت کا دعویٰ اور زعم باطل ہے۔ ان ڈھکنوں کی تصاویر جہاں غاصب صہیونیوں کا منہ چڑا رہی ہیں وہیں غاصب صہیونیوں کےحامیوں کے لیے بھی پیغام ہے کہ فلسطین کے سیوریج بھی پکار پکار کہہ رہے ہیں کہ ارض فلسطین پرصہیونیوں کا کوئی حق نہیں۔
اسرائیل میں رد عمل
سوشل میڈیا پروائرل ہونےوالی ان تصاویر پرعالمی اور علاقائی رد عمل کے ساتھ صہیونیوں کا بھی رد عمل سامنے آرہا ہے۔ اندرون فلسطین سے معمر فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ سیوریج مین ہول کا کے ڈھکن کی تصاویر اور ان پر درج عبارت اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ پورا فلسطین صرف فلسطینیوںکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں چپے چپے پرموجود فلسطینی یاد گاریں مٹانے کی منظم مہم کے تحت جہاں جہاں کوئی فلسطینی یا عرب شناخت تھی اسے عبرانیت اور یہودیت میںتبدیل کرکے فلسطینی تشخص مٹا دیا گیا ہے۔ ورنہ پورے فلسطین میں صہیونیوں کے وجود اور ان کی ملکیت کا کوئی ادنیٰ شائبہ تک نہیں ملتا۔
فیس بک پرایک صارف نے لکھا کہ ‘ سیوریج ہول’ کا ڈھکن صہیونیوںکا منہ چڑا رہا ہے۔ ڈھکن کی تصاویر پر امریکا، یورپ اور عرب ملکوںمیں تبصرے جاری ہیں۔ بعض ناقدین کا کہنا ہےکہ مین ہول کے ڈھکن کی تصویر صہیونیوں کے مظالم اور غاصبانہ قبضے کی مذمت کرتی ہے۔
کویت صحافی عبداللہ الھدلق کا کہنا ہے کہ قیام اسرائیل سے قبل ارض فلسطین پرفلسطینی حکومت کی نفی کرنے والےاس سیوریج کے ڈھکن کو دیکھ لیں۔ان کےقدم قدم پربولے گئے جھوٹ خود دنیا کے سامنے بے نقاب ہو رہے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا کہ حال ہی میں سامنے آنے والے مین ہول کا ڈھکن سنہ 1947ء سے بھی پہلے کا ہے۔ فلسطینی صحافی یاسرعلی ک کہنا ہے کہ برطانوی استبداد کے دور کے ڈھکن کی تصویر اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے۔ مگرغاصب صہیونیوں ایک سازش کے تحت فلسطین کی تاریخ مٹانے پرتلے ہوئے ہیں۔
بعض صارفین کا کہنا ہے کہ مذکورہ ڈھکن سنہ 1931ء میں قائم کی گئی ایک تعمیراتی کمپنی’السکب’ کے تیار کردہ ہیں۔ ایسے بےشمار ڈھکن تیار کئے گئے تھے مگر صہیونی ریاست نے ان پرموجود عرب عبارتوں کو عبرانی میں بدل دیا یا ان کی جگہ نئے ڈھکن لگائے گئے تھے۔