امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر جون کے آخری ہفتے میں خلیجی ریاست بحرین میں ایک نام نہاد اقتصادی کانفرنس منعقد کی گئی۔ دو روزہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد فلسطینیوں کو معاشی سہولیات دے کر انہیں اپنے حق خود ارادیت کے مطالبے سے باز رکھنے کی کوشش ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا، اسرائیل اور ان کے حواریوں نے کئی سال کی ‘محنت’ سے فلسطینی معیشت کا بیڑہ غرق کیا تاکہ عرب ممالک کو فلسطینی معیشت کو سنوارنے کے لیے اربوں ڈالرادا کرنے پر مجبور کیا جائے اور انہیں باور کرایا جائے کہ قضیہ فلسطین کا حل سیاسی نہیں بلکہ معاشی ہے اور معیشت کی بہتری سے ہم فلسطین ۔ اسرائیل تنازع حل کرسکتے ہیں۔ فلسطینی علاقوں میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کی آڑ میں قضیہ فلسطین کا تصفیہ کرنا ہے۔
بحرین کے دارالحکومت مناما میں 25 اور 26 کو ہونے والی اقتصادی ورکشاپ میں ‘صدی کی ڈیل’ کے امریکی منصوبے کا معاشی پہلو پیش کیا گیا۔
فلسطینیوں نے مجموعی طور پر اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ فلسطینی دھڑوں اور فلسطینی اتھارٹی کا مناما کانفرنس میں عدم شرکت کا متفقہ موقف سامنے آیا۔ فلسطینی اس کانفرنس کو امریکا کی مارکیٹنگ سے فلسطین میں صہیونی ریاست کے اقتصادی منصوبوں کی ترویج قرار دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطین کے حوالے سے جو کچھ اسرائیل چاہتا ہے وہ خود کرنے کے بجائے وہ کام امریکا سے کرا رہا ہے۔
معاشی امن
صہیونی ریاست کے اقتصادی منصوبے کے تحت معاشی امن کوئی نیا منصوبہ نہیں۔ فلسطینی تجزیہ نگار ناجی البطہ کا کہنا ہے کہ معاشی امن جسے ‘معاشی خوشحالی’ کا نام دیا گیا بن گوریون اور موشے شارٹ کے دورمیں پیش کیا گیا۔ یہ دونوں لیڈر صہیونی تحریک اور اسرائیلی ریاست کے چوٹی کے رہ نما شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو صرف انسانی مسئلے کے طور پر پیش کیا جس میں ان کا کوئی سیاسی حق تسلیم نہیں کیا گیا۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست نے پہلے تو فلسطینی پناہ گزینوں کےسیاسی حقوق سے انکار اور انحراف کیا اور آج امریکا کی مدد سے فلسطینی قوم کے تمام دیرینہ حقوق اور مطالبات کو نظرانداز کر کے اسے صرف ایک معاشی مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
سنہ 1917ء میں جاری ہونے والے اعلان بالفور کے بعد آج کے دن تک اور ربع صدی پہلے منظور ہونے والے نام نہاد اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینیوں کے سیاسی اور آئینی حقوق سے انحراف کیا گیا۔ فلسطینیوں میں پائے جانے والی بے اتفاقی نے غیروںکو اپنے سازشی منصوبے آگے بڑھانے کا موقع مہیا، جیسا کہ آج ہم صدی کی ڈیل کی شکل میں دیکھنے پر مجبور ہیں۔
صہیونی پروگرام مسلط کرنے کی کوشش
فلسطینی تجزیہ نگار اور مصنف اسامہ یوسف نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں صہیونی ریاست اور امریکا کے مشترکہ اقتصادی منصوبوں، بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں کو جس نظر سے دیکھا جائے وہ دراصل صہیونی ریاست کے پروگرام کو مسلط کرنے ہی کی ایک شکل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکا فلسطین میں جو معاشی منصوبے پیش کر رہا ہے وہ دراصل اسرائیل کی تمنائے خام ہے اور یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کا اصل مسئلہ سیاسی یا حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ معاشی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں معاشی خوش حالی، پیسے کی ریل پیل بنیادی ڈھانچے سڑکوں، اسپتالوں اور دیگر سہولیات کی فراہمی سے ہم فلسطینیوں کو تحریک آزادی سے دور کرسکتے ہیں۔ اس طرح امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر صہیونی پروگرام کو عملی شکل دے سکتا ہے۔
تجزیہ نگار ابراہیم حبیب نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مناما کانفرنس میں تین جوہری مسائل ارض فلسطین، پناہ گزینوں اور مقدسات کو نظرانداز کیا گیا۔ منامہ کانفرنس کو دو بڑے عرب ملکوں مصر اور اردن کے کامیاب بنایا۔ اگر یہ دونوں ملک اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے تو یہ کانفرنس مکمل طور پر ناکام ہو جاتی۔