بھارت کا اگرچہ براہ راست قضیہ فلسطین کے ساتھ کوئی گہرا تعلق نہیں مگر ہندوستانی سیاست میں اتارو چڑھائو کسی نا کسی طور پر قضیہ فلسطین پر اثرات ڈالتا ہے۔ اسی حوالے سے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں قائم ‘الزیتونہ اسٹڈی اینڈ کنسلٹنٹ سینٹر’ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بھارت میں حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات اور ان کے قضیہ فلسطین پر اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ رپورٹ فاضل تجزیہ نگار ڈاکٹر محمد مکرم بلعاوی نے مرتب کی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق تجزیاتی رپورٹ میں بھارت میں سال 2019ء کے انتخابی نتائج جس میں مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے کے ساتھ اور بائیں بازو اور سول سوسائٹی کی قوتوں کو دبانے کے بعد انتہا پسندوں کو زیادہ سے زیادہ کامیابی دلائی گئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور اعتدال پسند سیاسی قوتوں جو قضیہ فلسطین کی حامی سمجھی جاتی ہیں کو سیاست سے الگ کرنا ایک خطرناک اشارہ ہے۔ بھارتی سیاست میں آنے والی تبدیلی میں جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی حمایت میں بولنے والی قوتوں کو دبانے کی کوشش کی گئی وہیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والی طاقتوں اورانتہاپسند ہندئووں کو تقویت حاصل ہوئی۔
عالمی سطح پر اسلام فوبیا اوراسلام کے خلاف نفرت کی مہم نے بھارت میں بھی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا۔ عالم اسلام اور عرب ممالک کی طرف سے قضیہ فلسطین کے حوالے سے عالمی فورمز پر جاندار مقدمہ نہ لڑنے کے نتیجے میں بھارت کی اسرائیل کی طرف جانب داری میں اضافہ ہوا۔
علاقائی اور عالمی سطح پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ سال 2019ء کے بھارتی پارلیمانی انتخابات میں نریندر مودی اور ان کے حامیوں کو زیادہ کامیابی نہیں ملے گی مگر انہوں نے 543 نشستوں میں سے 350 نشستیں جیت کر تمام تجزیہ کاروں کے تجزیے اور اندازے غلط ثابت کر دیئے۔
بھارتی انتخابات کی اہمیت
عالمی سیاست میں بھارت کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کا شمار دنیا کے ان بڑے ممالک میں ہوتا ہے جو قدیم تہذیبوں کے امین سمجھے جاتے ہیں۔ عن قریب بھارت آبادی کے اعتبار سے چین جیسے کثیر آبادی والے ملک کے ہم پلہ ہونے والا ہے۔ اگرچہ بھارت کی معیشت کوئی زیادہ مستحکم نہیں مگر اس کے باوجود انڈیا کو 10 بڑی عالمی معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات عالمی سیاست اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بھارت میں 4 نومبر 2018ء سے 19 مئی 2019ء کا عرصہ بھارتی انتخابات کے حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا تھا۔ گذشتہ 70 برسوں کے دوران بھارتی سیاست دانوں اور دانشورں نے انتخابی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حالیہ عرصے کے دوران اعتدال پسند قوتوں کو یہ خدشہ ضرورتھا کہ حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آئے گی۔ سیکولر بھارت کے آئین میں تبدیلی کا امکان بھی ظاہر کیا گیا اور بھارت کو ہندو اکثریت ملک کے طور پر ہندو قومیت کی بنیاد پرچلانے اور دستور میں اقلیتوں کو حاصل حقوق دبانے کی مہم چلائی گئی۔
بھارتی انتخابات برائے 2019ء کے نتائج
بھارتی لوک سبھا کی کل 543 نشستوں پر پولنگ کرائی گئی۔ انتخابی نتائج میں 272 سیٹیں انتہا پسند ہندوئوں کے لیے مختص تھیں جب کہ اینگلو اینڈینز کے لیے صرف دو نشستیں رکھی گئیں۔ ان میں سے بھی ایک پر وزیراعظم مودی خود تھے مگر وہ یہ سیٹ نہیں جیت سکے۔ بھارت کی 10 ریاستوں میں اتر پردیش، مہاراشٹر، مغربی بنگال، بہار، مدھیا پریش، راجھستان، کرناٹکا، کیرالا، تامل ناڈو اور اندرا پردیش میں کل 370 نشستیں تھی جو کہ کل لوک سبھا کی تمام سیٹوں کا 68 فی صد ہیں۔ صرف ایک ریاست اترپردیش میں کل نشستوں کی تعداد 80 ہے جو کل تعداد کا 15 فی صد ہیں۔ حکومت بنانے کے لیے کل 272 سیٹوں پرکامیابی ضروری ہے ورنہ معلق پارلیمنٹ بن سکتی ہے۔
انتخابی نتائج
بھارتیا جنتا پارٹی نے ایوان میں 303 نشستیں حاصل کیں جو پچھلی بار کی نسبت 21 سیٹیں زیادہ ہیں۔ یوں اس بار بھارتیا جنتا پارٹی نے ملک کے زیادہ جغرافیے پر اپنا اثرو نفوذ قائم کیا ہے۔ مودی کی دیگر اتحادی جماعتوں نے 47 نشستیں حاصل کی جو ماضی کی نسبت 7 زیادہ ہیں۔
اپوزیشن جماعت کانگریس نے 52، اس کی اتحادی جماعتوں نے 33 جب کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے 108 نشستیں حاصل کیں۔ یہ نشستیں پچھلے الیکشن کی نسبت 39 نشستیں کم ہیں۔ اس بار حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی نے لوک سبھا میں اپنی افرادی قوت میں مزید اضافہ کر دیا۔
خواتین کی نمائندگی
سنہ 1962ء کے بعد بھارتی انتخابات میں خواتین کو مردوں کی نسبت برابر نمائندگی دی گئی۔ یہ پہلا موقع ہے جب ملک میں 67 فی صد خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ بھارتی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ 8 ہزار امیدواروں میں 723 خواتین امیدوار میدان میں اتریں۔
داخلی اثرات
بھارت میں ہونے والے انتخابات ملک کے مستقبل کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ بھارت جو کہ آبادی کے اعتبار سے ایک بڑا ملک بننے والا ہے، کو زیادہ خوراک، روزگار کے مواقع اور معیشت کی بہتری کی ضرورت ہے۔ کروڑوں شہریوں کو غربت کی لکیر سے نکالنا ایک الگ چیلنج ہے۔ مگر اس سب کے ساتھ اب بھارت میں بسنے والی اقلیتیں اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔ بھارت بہ تدریج ایک سیکولر جمہوری ملک سے نکل کر ہندو اکثریت پر مبنی ہندو قومیت کا ملک بنتا جا رہا ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق دبانے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔
خارجی اثرات
عالمی اور علاقائی سطح پر بھی بھارت کو ایک با اثر ملک سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کو معیشت کے میدان میں اپنے علاقائی روایتی حریف چین کے ساتھ مقابلہ ہے۔ ہندئوںکے نزدیک چین ہندو نظریے کے لیے پیغام موت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے سیاسی اور سفارتی قد کاٹھ بڑھانے کے ساتھ معیشت کی بہتری اور بقاء کے چیلنج کا سامنا ہے۔
بھارتی انتخابات کے عرب ممالک پر اثرات
بھارت اور خلیجی ممالک کےدرمیان گہرے دوستانہ مراسم ہیں۔ اگرچہ بھارت اور خلیجی ملکوں میں مذہب کا ایک بڑا فرق ہے مگر اس کے باوجود خلیجی ریاستیں بھارت کے ساتھ گہرے مراسم رکھتی ہیں۔ بھارت میں عرب ممالک کی کمپنیوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری رکھی ہے اور خلیج اور بھارت کے دو طرفہ تجارت کا حجم 2 کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بھارتی باشندوں کی بڑی تعداد عرب ممالک بالخصوص خلیج میں متحدہ عرب امارات میں ملازمت کرتی ہے۔ اس طرح بھارتی انتخابات عرب ممالک پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بھارت کا فلسطینیوں اور اسرائیل سے تعلق اور اس کے اثرات
بھارتی حکومت کا قضیہ فلسطین کے حوالے سے موقف پریگمیٹک ہے اور ‘اوسلو معاہدے’ کے بعد قضیہ فلسطین کے حوالے سے بھارتی موقف میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو قیادت فلسطینی اتھارٹی کی امداد محدود کرنے اور دوسری طرف اسرائیل کے ساتھ تمام شعبوں میں تعلقات کو وسعت دینے پر زور دے رہی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان ٹیکنالوجی، خلائی سائنس، سیکیورٹی، میزائل سازی، زراعت، آب پاشی اور دیگر شعبوںمیںپہلے تعلقات موجود ہیں۔ بھارت اس وقت اسرائیلی اسلحہ کا ایک بڑا خریدار ہے۔
دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی اور قضیہ فلسطین کے حوالے سے بھارت کا موقف پہلے جیسا نہیں رہا ہے۔ عرب ممالک اور فلسطینیوں کے درمیان پائی جانے والے اختلافات کے باعث بھی بھارت کے فلسطین کے حوالے سے موقف میں تبدیلی آئی ہے۔ عرب اور مسلمان ممالک کے حکمراںوں کے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی فلسطین اور مسئلہ فلسطین پر مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتے۔
اسرائیل کا موقف
صہیونی تحریک اور بھارتی قوم کے درمیان تاریخی تعلقات قائم رہے ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کے انتہا پسند بازو (Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS ایک ایسی رضا کار تنظیم ہے جو نسل پرستی کے نظریات کے اعتبار سے صہیونی تحریک کے ہم خیال ہے۔
اس کے علاوہ یہ تحریک مذہبی قومیت، مذہب کو وطن کے ساتھ جوڑنے، ذات پات اور دوسری قوموں کو کم تر کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بھارت میں جنتا پارٹی کے قیام سے بھی قبل صہیونیوں کے بھارتی ہندئوں کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ سابق بھارتی وزیراعظم نرسی مارائو نے 1991ء سے1996ء کےدوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر زور دیا تھا۔
دوسری طرف اسرائیل میں موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نریندر مودی کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ وہ نریندر مودی کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی قربتیں لامحالہ فلسطینیوں اور بھارت کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کا سبب بنیں گی۔