چهارشنبه 30/آوریل/2025

نظرانداز کیے جانے والے لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف سازش

اتوار 23-جون-2019

دنیا بھر میں 20 جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن دیگرپناہ گزینوں اور مہاجرین کے مسائل کے ساتھ خاص طورپر لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے بھی عالمی برادری کی توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ فلسطینی 71 سال سے جلا وطنی، ملک بدری اور گھر بدری کی ہولناک وادیوں سے گذر رہے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف سات عشروں سے سازشیں ہو رہی ہیں مگر امریکا کی’سنچری ڈیل’ اور بحرین اقتصادی کانفرنس فلسطینیوں کے خلاف لمحہ موجود کی بڑی سازشیں ہیں۔

صدی کی ڈیل امریکا کی قیادت اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے آگے بڑھانے والی گھنائونی سازش ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف اور نشانہ قضیہ فلسطین کا تصفیہ، فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کی نفی اوراسی ضمن میں 25 اور 26 جون کو بحرین کی میزبانی میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس ہے۔ یہ کانفرنس فلسطینیوں کے دیرینہ اور عالمی سطح پر مسلمہ حقوق کو پیسے کے ذریعے دبانے اور خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔

حقائق
فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف شرمناک سازشوں میں صدی کی ڈیل سب سے بڑی سازش ہے۔ اس کے خلاف عالمی سطح‌ پرسرگرم عالمی مہم نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف عالمی سازشوں کے ذریعےفلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کو آئے روز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

رپورٹ میں‌کہا گیا ہےکہ تاریخ فلسطینی سرزمین سے 8 لاکھ فلسطینیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ ان کے 532 قصبوں کو نیست ونابود کردیا گیا اور آج فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 90 لکھ تک پہنچی ہے۔
یہ فلسطینی پناہ گزینوں کچھ اس طرح مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ غزہ میں 15 فی صد، غرب اردن میں نو اعشاریہ ایک فی صد، سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں ایک اعشاریہ 8 فی صد، عرب ممالک میں 66 فی صد اور باقی دنیا میں 8 اعشاریہ 1 فی صد فلسطینی پناہ گزین ہیں۔

اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی ‘اونروا’ کے ہاں 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزین رجسٹرڈ ہیں جو اندرون اور بیرون ملک 58 پناہ گزین کیمپوں میں رہتے ہیں۔

 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 11 دسمبر 1948ء کو قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی اور انہیں معاوضہ ادا کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔

رپورٹ میں کہاگیا پے کہ فلسطینیوں‌کی ان کے وطن سے بے دخلی اور جبری ھجرت دراصل صہیونی تحریک اور اس کی بانی لیڈرشپ کا مذموم منصوبہ تھا جو سنہ 1947ء میں "ڈالٹ” کے نام سے تیار کیاگیا۔
اس مذموم منصوبےکو عملی جامہ پہنانے کے لیےصہیونی جلادوں اور اجرتی قاتل مافیا نے فلسطین میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام کیا۔ دیر یاسین اور طنطور میں ہونے والے وحشیانہ قتل عام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سنہ 1949ء کے بعد صہیونی ریاست نے بار بار اور تکرار کے ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی سے انکار کیا۔
قابض صہیونی ریاست فلسطینی پناہ گزینوں‌کے مقدس حق کے ساتھ کھلواڑ کرتی یہ کہا جاتا رہا کہ صرف عمررسیدہ فلسطینی واپس آسکتے ہیں جبکہ دوسرے عرب ملکوں‌میں مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کو وہاں پر ہی مستقل شہریت دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔

حال ہی میں جب امریکا کی طرف سے ‘صدی کی ڈیل’ کی سازش کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہوئیں تو اس کی لیک ہونے والی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں‌کے حق واپسی کے لیے کوئی تجویز پیش نہیں‌کی گئی۔

حالانکہ جنیوا معاہدے سمیت دنیا کے تمام بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدے فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو تسلیم کرچکے یہں۔

ان معاہدوں اور عالمی قوانین میں سنہ 1948ء میں اسرائیل اور عربوں کےدرمیان تنازع سے قبل دو سال تک فلسطینی علاقوں میں مستقل آبادکار کی حیثیت سے رہنے والے فلسطینی پناہ گزین کا درجہ دیا تھا۔ جس کا مکان، معیشت، زمین اور دیگر املاک چھین لی گئیں اسے اس کی آل اولاد کو پناہ گزین کا درجہ دیا گیا۔

اوسلو معاہدے میں تنظیم آزادی فلسطین اوراسرائیل کے درمیان فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو حتمی حل کے طورپر زیرغور لانے سے اتفاق کیا گیا۔

مختصر لنک:

کاپی