شنبه 16/نوامبر/2024

جمال خاشقجی کے مجرمانہ قتل میں محمد بن سلمان براہ راست ملوث ہے

جمعرات 20-جون-2019

اقوامِ متحدہ کی کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد جاری کردہ رپورٹ میں سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان کو براہ راست صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی اس قتل کے مقدمے میں شاملِ تفتیش کرنے اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
 

جمال خاشقجی کو گزشتہ برس اکتوبر میں تُرکی کے شہراستنبول میں سعودی قونصلیٹ میں قتل کردیا گیا تھا۔
اس واقعہ کی سعودی حکام شروع شروع میں تو تردید کی تھی اور کہا تھا کہ انھیں اس کے قتل کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔
لیکن بعد میں سعودی حکام نے کہا تھا کہ جمال خاشقجی کو سعودی عرب لانے کی کوشش کی گئی تھی جس میں مزاحمت کے دوران وہ ہلاک ہو گیا تھا۔
بہر حال بالآخر، سعودی حکام نے تسلیم کیا تھا کہ اس کے قتل کا حکم ایک سعودی انٹیلیجینس افسر نے دیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے قابلِ بھروسہ شواہد سامنے آئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور چند اعلیٰ اہلکار اپنی انفرادی حیثیت میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔
سپیشل رپورٹوئر یا خصوصی تحقیقاتی افسر اگنیس کیلامارڈ کہتی ہیں کہ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن پر ایک غیر جانبدار بین الاقوامی آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سپیشل رپورٹوئر اگنیس کیلامارڈ نے سیکیورٹی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی شامل کرے۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کو گزشتہ برس اکتوبر میں ترکی کے شہر میں سعودی قونصل خانے میں سعودی ایجنٹوں نے ہلاک کردیا گیا تھا۔
سعودی عرب کے حکام نے بعد میں اصرار کیا تھا کہ یہ ایجنٹ ولی عہد محمد بن سلمان کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے تھے۔
سعودی بادشاہت اس وقت جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں گیارہ نا معلوم سرکاری اہلکاروں پر خفیہ عدالت میں مقدمہ چلا رہی ہے جن میں سے پانچ کے لیے استغاثہ نے سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم اگنیس کیلامارڈ نے کہا ہے کہ یہ مقدمہ جس انداز سے چلایا جا رہا ہے وہ کسی بھی طور پر بین الاقوامی معیار کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔ انھوں نے اس مقدمے کی کارروائی کو معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی