امریکا کے اسرائیل میں سفیر ڈیوڈ فریڈمن نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ ان کے ملک ’’اسرائیل‘‘ کو مقبوضہ غربِ اُردن کے کچھ حصے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا حق ہے۔ اس بیان کے بعد فلسطینیوں کی جانب سے امریکا کے قیام امن سے متعلق نقشہ راہ کو مزید شدت سے مسترد کئے جانے کا امکان ہے۔
امریکی سفیر نے نے کہا ہے کہ اسرائیل کو حق ہے کہ وہ غربِ اردن کے کچھ حصوں کو ضم کر لے اگرچہ ایسی کاروائی بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہو گی۔
امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اردن اور اسرائیل کے درمیان، بہ قول اُن کے، ‘ایک ناکام فلسطینی ریاست’ کی حمایت نہیں کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ اگر سکیورٹی کی وجہ سے کل اسرائیل اپنی افواج کو غربِ اردن میں رکھتا ہے تو یہ ایسے ہی ہو گا جیسے امریکا نے اپنی افواج جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا میں تعینات کی ہوئی ہیں۔ تاہم انھوں نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا کہ صدر ٹرمپ کا کیا ردعمل ہو گا اگر اسرائیلی وزیرِ اعظم اپنے تئیں اپنے وعدے کے مطابق غربِ اردن میں ان یہودی بستیوں کو اسرائیلی ریاست میں یکطرفہ طور پر ضم کرنا شروع کر دیں۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق غربِ اردن کا علاقہ ایک مقبوضہ خطہ ہے اور اس پر تعمیر ہونے والی یہودی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ غربِ اردن پر سنہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ کیا تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نتن یاہو نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ غربِ اردن میں تعمیر شدہ یہودی آبادیوں کو اسرائیلی ریاست کا حصہ قرار دے دیں گے۔ ان کے اس اقدام سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی اور قیامِ امن کے لیے ‘دو ریاستی’ حل کا فارمولہ اپنی موت خود مر جائے گا۔