آج سے ایک سال قبل فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی میں زخمی ہونے والے فلسطینی مظاہرین کی مرہم پٹی کرنے والی 21 سالہ نرس رزان النجار کو اسرائیلی فوجیوں نے نشانہ بنا کر گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں وہ جام شہادت نوش کر گئیں۔ رزان شہادت کے وقت بھی غزہ کی مشرقی سرحد پر فلسطینی مظاہرین کی طبی اور انسانی خدمت میں مصروف تھیں۔ رزان کی شہادت نے صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی اور صہیونی ریاست کی وحشت اور بربریت کوایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔
شہیدہ دکھی انسانوں کی خادمہ
رزان النجار کو یکم جون 2018ء کو اسرائیلی فوجیوں کے نشانہ باز دہشت گردوں نے قریب سے گولیاں مار کر شہید کیا۔ وہ اس وقت مشرقی خان یونس میں سرحد باڑ کے قریب ایک خیمے میں زخمیوں کی مرہم پٹی کر رہی تھیں۔
رزان کی شہادت نے نہ صرف فلسطین بلکہ عرب اور مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ روزان کی شہادت پوری دنیا کی رائے عامہ کا موضوع بحث بن گئی۔ رزان کا قصہ حقیقی معنوں میں انتہائی دردناک تھا۔ وہ صہیونی دشمن جن کی شر اور فتنے سے شجر وحجر اور بشر سب غیر محفوظ ہیں۔
روزان النجار 1997ء کو غزہ کی پٹی میں پیدا ہوئیں اور جمعہ یکم جون2018ء ماہ صیام میں روزے کی حال تمیں اس دنیا سے ابدی جنتوں کے لیے کوچ کر گئیں۔
شہید کی ماں کا پیغام
رزان النجار کی والدہ 45 سالہ رزان صابرین النجار نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کی جدائی کو زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ اس کی شہادت کی خبر ملتے ہی ہم غزہ کے یورپی اسپتال پہنچے جہاں اس کا جسد خاکی لایا گیا تھا۔ وہاں ایک میت بکس کے قریب میری لخت جگر کے خون میں لت پت کپڑے رکھے ہوئے تھے۔
رزان صابرین النجار نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کی جدائی کا غم کیسے سہ رہی ہوں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ وہ کئی ہفتوں تک غزہ کی پٹی میں مظاہرین کی خدمت میں سرگرم تھی۔ وہ روزانہ واپس آ کر مجھے اپنی خدمات اور زخمیوں کی طبی امداد سے متعلق اپنے کارنامے بتاتی۔ مجھے اس کی کارکردگی کو دیکھ کر دلی خوشی ہوتی۔ وہ مجھے بتاتی کہ اسرائیلی فوجی کس طرح نہتے فلسطینی مظاہرین کو نشانہ بنا کران پر آنسوگیس کی شیلنگ کرتے اور ان پر مہلک قاتلانہ حملے کرتے ہیں۔
رزان النجار کے والدین بیٹی کی شہادت اور اس کا پیغام لے کر ملکوں ملکوں گئے۔ اب تک وہ 28 ملکوں میں صہیونی ریاست کے جرائم کے بارے میں وہاں کے لوگوں سے مل چکے ہیں۔ ان کا مشن صرف اپنی بیٹی پر ہونے والے ظلم کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ وہ مظلوم فلسطینی قوم اور قضیہ فلسطین کا عظیم مشن لے کر سفر کر رہے ہیں۔
انسانی خدمات کا آئیکون
شہید النجار کے والد ابو احمد النجار نے ‘مرکز اطلاعات فلسطین’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری بیٹی کی شہادت نے قضیہ فلسطین کو ایک نیا جنم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جہاں بھی اپنی بیٹی کا مقدمہ لے کر گئے تو ان کے اور پوری فلسطینی قوم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ پوری دنیا اسے انسانی خدمات کا ایک استعارہ اور ایک آئیکون سمجھتی ہے۔
یکم جون کو شہیدہ روزان النجار کے والدین نے اپنی بیٹی کی ایصال ثواب کے لیے روزہ داروں میں گوشت اور خوراک تقسیم کی۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ بیٹی کی شہادت انتہائی المناک ہے۔ مجھ پر ہردن بیٹی کی شہادت کے دن کی طرح بھاری گذرتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ابو احمد نے بتایا کہ میں اپنی بیٹی کا مقدمہ لے کر یورپی ملکوں سمیت 28 ملکوں میں گیا۔ میرے سفر کا اہتمام اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والی عالمی تحریک ‘بی ڈی ایس’ کی طرف سے کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں لوگوں میں آگاہی نہیں۔ بعض ملکوں میں صہیونی ریاست اپنی ابلاغی وفادار تنظیموں اور یہودی لابی کے ذریعے مقامی آبادی کو حالات کی غلط تصویر پیش کرتی ہے۔ ایسے ملکوں میں سفر کے دوران لوگوں کو فلسطین کے حالات جان کر حیرت ہوئی۔