دو سال قبل فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اپنی کابینہ کے وزراء کے لیے 2000 ڈالر مہنگائی الائونس کی منظوری دی مگر حیران کن امریہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سرکاری ملازمین اور وزراء کے معاملے میں کھلم کھلا امتیازی سلوک کی مرتکب ہو رہی ہے کیونکہ ایک وزیر کو ملنے والا مہنگائی الائونس ایک عام سرکاری ملازم کو حاصل الائونس سے 66 گنا زیادہ ہے۔
بیرزیت یونیورسٹی کے فلسطینی پروفیسر ایاد الرجوب نے ‘فیس بک’ پر پوسٹ ایک بیان میں کہا کہ پوری دنیا میں حکومتیں سرکاری ملازمین اور عوام کو مہنگائی الائونس دیتی ہیں۔ فلسطین میں مہنگائی کا تعین مرکزی ادارہ شماریات کرتا ہے۔ ملازمین کو ان کی بنیادی تنخواہ کے مطابق ان کے اسکیل کے حساب سے مہنگائی الائونس دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی الگ سے رقم نہیں ہوتی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق حال ہی میں صدر عباس نے مہنگائی الائونس میں اضافہ کرتے ہوئے وزراء کا الائونس 3 ہزار سے بڑھا کر 5 ہزار کر دیا جب کہ وزیراعظم کا چار ہزار سے چھ ہزار کیا گیا۔
الرجوب کا کہنا ہے کہ ہرسال کےآغاز میں جو کہ پچھلے چار سال کے حساب سے ایک فی صد سے ایک اعشاریہ 25 فی صد مہنگائی الائونس میں اضافہ کرتی ہے۔ یعنی وزیر کی تن خواہ تین ہزار ہو تو اس پر مہنگائی الائونس 37 اعشاریہ 5 یا 37 اعشاریہ 30 ڈالر بنتا ہے۔
مگر یہ بات حیران کن ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے بہ یک جنبش قلم 2000 ڈالر بنیادی تنخواہ پر 3000 ڈالر مہنگائی الائونس کی منظوری دی گئی۔ یہ رقم ایک عام ملازم کو ملنے والی اضافی مراعات یا مہنگائی الائونس سے 66 گنا زیادہ ہے۔
خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اپنے وزراء پر یہ نوازشات ایک ایسے وقت میں کی گئی ہیں جب دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی مالی بحران کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی نے عوام کو سادگی اور کفایت شعاری سے کام لینے کی تلقین کی جا رہی ہے جب کہ غزہ کی پٹی میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔