پنج شنبه 01/می/2025

ترکی کے مرمرہ جہاز پر صہیونی یلغار کے 9سال مکمل!

اتوار 2-جون-2019

اکتیس مئی کی تاریخ فلسطین کی تاریخ کا ایک سیاہ باب اور صہیونی ریاست کے جرائم کےتسلسل کا ایک تاریک دن ہے جس میں قابض صہیونی ریاست نے محصورین غزہ کے لیے امدادی سامان لےکرآنے والے ترکی کے امدادی جہاز’مرمرہ’ پر شب خون مار کر 10 ترک رضاکاروں کو شہید اور 56 کو زخمی کردیا تھا۔ صہیونی فوج نے ہزاروں ٹن امدادی سامان لوٹ لیا اور ساڑھے سات سو امدادی کارکن جن کا تعلق 37 ملکوں سے تھا کو حراست میں لےلیا گیا۔
ترکی کے امدادی جہاز’مرمرہ’ کا ہدف غزہ کی ناکہ بندی توڑنا تھا۔ 31 مئی 2010ء کو جب یہ امدادی جہاز امدادی سامان اور 750 امدادی کارکنوں کو لے کرغزہ کی پٹی کی بندرگاہ کی طرف بڑھنے لگا تو صہیونی بحریہ نے اس کا راستہ روکتےہوئے اس پر حملہ کردیا۔ حملے میں 9 ترک رضاکار موقع پر ہی شہید ہوگئے جب کہ ایک زخمی سنہ 2014ء کوانقرہ کے ایک اسپتال میں دم توڑ گیا۔ اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائی میں 56 امدادی کارکن زخمی ہوئے۔
اکتیس مئی 2019ء‌کو مرمرہ پراسرائیلی فوج کے شب خون مارنے کے واقعے کو 9 سال ہوگئے۔ اس موقع پر اندرون فلسطین، ترکی اور بیرون ملک اسرائیلی دہشت گردی اور مرمرہ جہاز پرحملوں‌ کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
واقعے کی تفصیل
مرمرہ جہاز مئی 2010ء قبرص کی ‘لارنکا’ بندرگاہ سے غزہ کی طرف عازم سفر ہوا۔ بحری جہاز کے سفر شروع کرتے ہی اسرائیلی میڈیا میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ اسرائیلی فوج نے ترکی کے امدادی جہاز کوراستے میں روکنے کا تہیا کر رکھا ہے۔ اسرائیلی فوج طاقت کا استعمال کرکے جہاز کو روکنے کی پوری کوشش کرے گی۔
مرمرہ پر امدادی سامان کا انتظام کئی امدادی اداروں کی طرف سے کیا گیا تھا مگر ان میں ترکی کے امدادی ادارے’آئی ایچ ایچ’ کا کردار سب سے زیادہ تھا۔
اکتیس مئی 2010ء کو مرمرہ غزہ کے ساحل کےقریب پہنچا تو اسرائیلی فوج نے سمندرمیں اسے گھیرے میں لے لیا۔ قابض فوج نے جہاز پر چڑھ کر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں نو ترک رضاکار شہید اور دسیوں زخمی ہوگئے۔
اسرائیلی فوج نے جہاز کاسامان لوٹ لیا۔ زخمی ہونےوالوں میں اوگورسلیمان سویلماز 23 مئی 2014ءکو انقرہ کے ایک اسپتال میں دم توڑ گئے۔
واقعے کے اسرائیل ۔ ترکی تعلقات پراثرات
مرمرہ جہاز پر اسرائیلی فوج کے شب خون مارنے کی اسرائیل کو بھاری قیمت چکاناپڑی۔ ترکی نے اسرائیل کا سفارتی بائیکاٹ کردیا۔ تل ابیب سے اپنا سفیر واپس اور انقرہ سے صہیونی سفیرکو بے دخل کردیا گیا۔
اسرائیل نے موقف اختیار کیا کہ امدادی جہاز پرحملہ اس لیے کیاگیا کیونکہ جہاز کی انتظامیہ نے اسرائیل سے  اسے غزہ لے جانے کی اجازت حاصل نہیں‌کی تھی۔
دونوں ملکوں کےدرمیان کئی سال تک سفارتی تعلقات کشیدہ رہے۔ آخر کار اسرائیل نےترکی سے باضابطہ معافی مانگی اور شہداء کے لواحقین اور زخمیوں‌کو ہرجانہ ادا کیا جس کے بعد ترکی نے محدود سطح پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں مگر انقرہ اور تل ابیب میں فوجی تعاون بدستور معطل ہے۔
ترکی نے اسرائیل کا سفارتی درجہ بھی کم کردیا ہے۔
28 مئی 2012ء کو اسی حوالے سے عالمی سطح‌پریہ پیش رفت سامنے آئی جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے 37 ملکوں‌کے 490 امدادی کارکنوں‌کی مدعیت میں ترکی کی ایک عدالت میں مرمرہ جہاز پرحملے کے خلاف دعویٰ دائر کیا۔
27 جون 2016ء کوترکی اور اسرائیل نے دوطرفہ سفارتی بحران ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان ترکی کی طرف سے اسرائیل کی طرف سے معافی قبول کیے جانےکے بعد کیا گیا۔ اسرائیل نے شہید ہونے والے امدادی کارکنوں کو 20 ملین ڈالر کی رقم ہرجانے کے طور پرادا کی۔
 

مختصر لنک:

کاپی