فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت حکام نے ایک فلسطینی نوجوان کو محض اس لیے حراست میںلے لیا کہ اس نے وزیراعظم محمداشتیہ سےزیر حراست فلسطینی معلمہ آلاء محمد بشیر کی بلا جواز گرفتاری کے بارے میں سوال اٹھایا تھا۔
مقامی فلسطینی ذرائع نے بتایاکہ عباس ملیشیا نے محمد عایش نامی ایک فلسطینی نوجوان کو حراست میں لینے کے بعد اس کا موبائل فون بھی ضبط کرلیا۔وہ وزیراعظم سے آلاء بشیر کے بارے میں سوال کو فیس بک لائیو سروس سے براہ راست دکھانے کی کوشش کررہا تھا۔
خیال رہے کہ آلاءبشیر کو عباس ملیشیا نے چندہفتے پیشتر غرب اردن کےجنوبی شہیر جینصافوت سے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ ایک دینی مدرسے میںبچوں کو قرآن پڑ ھار ہی تھی۔ 23 سالہ آلاء بشیر کی گرفتاری کی ٹھوس وجہ سامنے نہیں لائی گئی تاہم اس کے اہل خانہ کا کہنا ہےکہ عباس ملیشیا نے ان کے خاندان کو دبائو میں لانے کے لیے آلاء کو حراست میں لیا ہے۔
آلاءکی گرفتاری 9 مئی کو عمل میںلائی گئی تھی۔ عباس ملیشیا کے25 اہلکاروںنے مسجد عثمان بن عفان میں دینی مدرسے پر چھاپہ مارا اور آلاء بشیر کو وہاں سے اغواء کرلیا گیا تھا۔
آلاءبشیر کہ والدہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی گرفتاری کا محرک سیاسی انتقام ہے۔ عباس ملیشیا کی طرف سے آلاء کے کیس کی پیروی کرنے والے وکلاءکو بھی دبائو اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
انہوںنے بتایا کہ عباس ملیشیا نے دو روز قبل انہیں فون کرکے دھمکی دی کہ ہم آلاء بشیر کے حوالے سے کسی قسم کی احتجاجی سرگرمی سے باز رہیں ورنہ عباس ملیشیا مجھے بھی حراست میں لے لے گی۔
اسیرہ کی ماںکا کہنا ہے کہ عباس ملیشیا کے بدمعاشوں نے مسجد عثمان بن عفان پر چھاپے کے دوران مسجد کے تقدس کا بھی خیال نہیںرکھا بلکہ مسجد کے اندر گھس کر اللہ کے گھرکی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے حراست میں لے لیا گیا۔
