اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو اور ان کی جماعت ‘لیکوڈ’ 9 اپریل 2019ء کو ہونے والے کنیسٹ انتخابات میں کامیابی کے باوجود حکومت کی تشکیل میں ناکام رہے۔ نیتن یاھو کی یہ ناکامی اس وقت ہوئی جب سابق وزیر دفاع اور شدت پسند سیاست دان آوی گیڈور لائبرمین’ کی جماعت ‘یسرائیل بیتنا’ نے حکومت میں شمولیت کے لیے ایسی شرائط پیش کیں جنہیں نیتن یاھو اور ان کی جماعت تسلیم نہ کرسکے۔
اسی طرح بعض دوسری سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی حکومت میں شمولیت کے لیے سخت موقف اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں نیتن یاھو کے لیے حکومت کی تشکیل مشکل ہوتی چلی گئی۔ یوں ڈیڑھ ماہ گذر جانے کے بعد بھی نیتن یاھو کو اس باب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بھرتی کا قانون ناکامی کا سبب
سیاسی تجزیہ نگار عماد ابو عواد نے ‘مرکز اطلاعات فلسطین’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آوی گیڈور لائبرمین نے بھرتی سے متعلق قانون میں کسی قسم کا درمیانہ راستہ یا ثالثی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لائبرمین انتہا پسندوں اور مذہبی یہودیوں کے ساتھ قربت رکھنے کی وجہ سے اس قانون کو مسترد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جب کہ نیتن یاھو کا موقف یے کہ مذہبی یہودیوں کو فوج میں لازمی سروس میں خدمات انجام دینے کا پابند بنانے پر مبنی تھا۔
بھرتی کے قانون پر کسی حد اتفاق رائے ہونے کے باوجود لائبرمین ایک اجلاس سے اچانک اٹھ کر چلے گئے۔ انہوں نے بھرتی کے قانون میں جوہری تبدیلی کا مطالبہ کیا جسے نیتن یاھو اور ان کی جماعت کی طرف سے قبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔
تجزیہ نگار غسان الشامی کا کہنا ہے کہ حریدیم یہودی طبقے کی طرف سے بھرتی کے قانون کو حکومت کی تشکیل کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ بنا کر پیش کیا۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آوی گیڈور لائبرمین فوج اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر حریدیم کو لازمی سروس سے استثنیٰ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
غزہ کی پٹی کی رکاوٹ
اسرائیل میںہونےوالے پارلیمانی انتخابات سے قبل اور اس کے بعد نیتن یاھو اور لائبرمین کے درمیان ایک اور تنازع بھی موجود تھا۔ وہ تنازع غزہ کی پٹی پر تھا۔ لائبرمین نے یہ شرط عاید کی تھی کہ حکومت میں اس شرط پر شامل ہوں کہ اگر نیتن یاھو ان کے ساتھ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف مزید سختی برتنے اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عہد کریں۔
تجزیہ نگار ابو عواد نے کہا کہ غزہ کا معاملہ بھی لائبرمین اور نیتن یاھو کے درمیان حل طلب رہا جس کی بناء پر دونوں جماعتیں حکومت کی تشکیل میں ناکام رہیں۔
تجزیہ نگار الشامی کا کہنا ہے کہ غزہ کی فیلڈ کی صورت حال اور فلسطینیوں کی مزاحمتی صلاحیت کے پیش نظر نیتن یاھو غزہ میں عن قریب فوج کشی کا ارادہ نہیں رکھتے۔
ابو عواد کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست جس قدر جنگی وسائل سے لیس ہے اس میں اس کی کوشش ہے کہ جنگ میں اس کا کوئی فوجی ضائع نہ ہو۔ اسرائیلی ریاست اور فوج اپنا ایک فوجی بھی کھونا نہیں چاہتے۔ اگر غزہ میں جنگ چھڑتی ہے تو اسرائیل کو اپنے فوجیوں اور یہودی آباد کاروں کی بڑی تعداد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ہوگا اور یہ نیتن یاھو ایسا نہیں چاہتے۔ اس کے مقابلے میں لائبرمین غزہ پر ایک اور جنگ مسلط کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔