سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ‘فیس بک’ پر اکثر اسرائیل کی طرف داری اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم پر پردہ ڈالنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔ یہ الزام نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ‘فیس بک’ جیسے سوشل میڈیا کے ادارے قابض صہیونی ریاست کے ساتھ مل کر سچائی کے قتل عام میں صہیونی ریاست کا دست وبازو اور آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں بھی ‘فیس بک’ نے ایک منظم مہم کے تحت فلسطینی شہریوں کے ہزاروں سوشل صحافت، فین پیجز اور گروپ بلاک کر دیے۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹ کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ چونکہ یہ صفحات اسرائیل کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے تھے اور ان پر پوسٹ کردہ مواد کو غیرجانب دارانہ حیثیت حاصل نہیں تھی جس کے باعث انہیں بلاک کیا گیا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فلسطینیوں کے ان عام فیس بک صفحات کو بھی بند کیا گیا جن کا فلسطینیوں کی تحریک آزادی یا مزاحمت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ فیس بک کا دہرا معیار ملاحظہ کیجیے فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے ہزاروں صفحات اسرائیل میں سرگرم ہیں اورانہیں فیس بک کی طرف سے مکمل تحفظ حاصل ہے۔
مگر جب بات فلسطینیوں اور ان کے حقوق کی آتی ہے تو ‘فیس بک’ انتظامیہ کے پیٹ میں فورا مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
فیس بک نے جن فلسطینی صفحات کو بلاک کیا ہے ان میں کئی موثر شخصیات اور سرکردہ فلسطینی اداروں کے صحافت بھی شامل ہیں۔ ان میں بین الاقوامی القدس فائونڈیشن، اخبار القدس اور الاقصیٰ کے صفحات جن کے فالورز کی تعداد کی تعداد ایک ملین سے زاید تھی۔
دانستہ کارروائی
متاثرہ شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ فیس بک پر نیا اکائونٹ بنانے اور صفحات تخلیق کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ فیس بک انتظامیہ مظلوم فلسطینیوں کی پکار کو دبانے کے لیے بار بار اس طرح کی انتقامی کارروائیاں کر سکتی ہے۔
فیس بک نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دنیا بھر کے جعلی فیس بک صفحات کو بلاک کرنے کی مہم شروع کی ہے تاہم سماجی کارکن اور شہری آزادی کے لیے کام کرنے والے ادارے فیس بک کے اس دعوے کو تشکیک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فیس بک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی آواز دبانے کی سازش میں سرگرم ہے۔
دبائو کی تحریک
فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر اشرف القدرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیس بک پر دبائو بڑھانے اور بند کیے گئے صفحات کو بحال کرنے کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم فیس بک کے ذریعے صحت کی صورت حال اور فیلڈ کی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک انسانی عمل ہے جسے عالمی قوانین اور بین الاقوامی حقوق کی حمایت حاصل ہے۔
فلسطین کے یوتھ میڈیا سینٹر کے چیئرمین ایاد القرا کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک نے صحافیوں کے ان گنت صفحات بند کر دیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی تنظیموں کے ذریعے ہم نے فیس بک پر دبائوڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی اور بین الاقوامی جرنلسٹ فیڈریشن کے ذریعے فیس بک کے خلاف ایک پریشر گروپ تشکیل دیا ہے۔
القرا کا کہنا ہے کہ فیس بک کی جانب سے فلسطینیوں کے صفحات پر موجود مواد کو غیر مجاز قرار دے کر انہیں بند کرنا یک طرفہ اقدام ہے۔