امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کی قیمت کے اسلحے کی فروخت کی اجازت دینے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اس کی وجہ اپنے اتحادی کو ایران سے بڑھتا ہوا خطرہ قرار دیا ہے۔
ایسی فروخت کو عموماً کانگرس کی منظوری چاہیے ہوتی ہے لیکن صدر ٹرمپ آٹھ ارب ڈالر کے معائدے کی منظوری کے لیے وفاقی قانون کے ایسے پہلو کا استعمال کرنے جا رہے ہیں جسے کم ہی کام میں لایا جاتا ہے اور اس کی مدد سے منظوری کے عمل میں کانگرس کا کردار نہیں رہتا۔
انھوں نے یہ اقدام ایران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کو قومی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے کیا۔
اس فیصلے کی وجہ سے ان حلقوں میں کافی غصہ پایا جا رہا ہے جن کو یہ خدشہ ہے کہ یہ اسلحہ عام شہریوں پر استعمال ہو سکتا ہے۔
کچھ ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین صدر ٹرمپ پر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ کانگرس میں یہ معاہدہ اس لیے نہیں لے کر جا رہے ہیں کیونکہ وہاں حدف شکن اسلحہ اور دوسرے قسم کے بموں کی قروخت کی سخت مخالفت ہوتی۔
یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ یہ ہتھیار اردن اور متحدہ عرب امارات کو بھی قروخت کیا جائے گا۔
جمعے کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس فروخت کے فیصلے کے متعلق کانگرس کی انتظامیہ کو مطلع کیا۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ’ایران کی باطن سرگرمیوں‘ کے لیے ہتھیاروں کی فوری قروخت ضروری ہے۔
انھوں نے لکھا ’(ایران کی) سرگرمیاں مشرق وسطیٰ کے استحکام اور امریکی دفاع کے لیے خطرہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ایران کے مشرق وسطیٰ اور خلیج میں مزید رجحانات کو روکنے کے لیے جلد از جلد ہتھیاروں منتقلی کرنی ہو گی۔
لیکن اس اقدام نے جلد ہی حزب اختلاف کو متحرک کر دیا۔ سفارتی تعلقات کی کمیٹی کے رکن اور ڈیموکریٹک سینیٹر روبرٹ مینینڈیز نے صدر ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ آمر حکومتوں کی حمایت حاصل کر رہے ہیں۔
سفارتی کمیٹی کے چیئرمین اور ریپبلکن جم ریش نے کہا ٹرمپ انتظامیہ نے یہ مطلع کر دیا ہے کہ متعدد اسلحے کی فروخت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’میں اس اقدام کے قانونی جواز کا جائزہ لے رہا ہوں۔‘
صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ ان کے اس اعلان کے تھوڑے دنوں بعد ہی آیا جس میں انھوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی موجودگی کو مزید مستحکم کرنے کا کہا۔ مستقبل قریب میں خظے میں مزید 1500 فوجی، جنگی فضائی جہاز اور ڈرونز تعینات کیے جائیں گے۔