گوگل نے چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کے لیے اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم کے بعض اپ ڈیٹس بند کر دیے ہیں۔ اس طرح ہواوے کے نئے ڈیزائن والے سمارٹ فونز پر گوگل کی بعض ایپس نہیں چلیں گی، جو کمپنی کے لیے ایک دھچکا ہے۔
خیال رہے کہ یہ اقدامات امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ہواوے کو ان کمپنیوں کی فہرست میں ڈالے جانے کے بعد کیے گئے ہیں جن کے ساتھ امریکی کمپنیاں اس وقت تک تجارت نہیں کر سکتیں جب تک کہ وہ لائسنس حاصل نہ کر لیں۔
گوگل نے ایک بیان میں کہا کہ وہ صدارتی حکم کی تعمیل کر رہے ہیں اور اس کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ہواوے کے موجودہ صارفین تاحال ایپس اور سکیورٹی فکسز اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ گوگل پلے سروسز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن جب گوگل رواں سال اپنے اینڈرائڈ او ایس کا نیا ورژن لانچ کرے گا تو وہ ہواوے کے فونز پر دستیاب نہیں ہوگا۔
مستقبل کے ہواوے فون سیٹ میں اب یوٹیوب اور گوگل میپس جیسے ایپس نہیں ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ہواوے اینڈروئڈ آپریٹنگ سسٹم کا اوپن سورس لائسنس کے ذریعے استعمال کر سکتا ہے۔
گذشتہ بدھ کو ٹرمپ انتظامیہ نے ہواوے کو ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا جو بغیر حکومت کی منظوری کے امریکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی حاصل نہیں کر سکتیں۔
اس ’اینٹیٹی لسٹ‘ میں شامل کیے جانے کے بعد اپنے پہلے بیان میں ہواوے کے چیف ایگزیکٹو رین زینگ فے نے سنیچر کو جاپانی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘ہم پہلے سے ہی اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔’
جاپانی اخبار نکے بزنس کے مطابق کمپنی کا کہنا ہے کہ سالانہ 67 ارب امریکی ڈالر کا ساز و سامان خریدنے والی کمپنی اپنے پرزے خود تیار کرنے کی جانب بھی جا سکتی ہے۔
ہواوے پر 5G موبائل نیٹ ورک کے استعمال میں ممکنہ خطرات کے پیش نظر مغربی ممالک کی جانب سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور بہت سے ممالک نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چینی حکومت ہواوے کا سامان جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتی ہے، تاہم کمپنی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
ہواوے کا کہنا ہے کہ اس کے کام سے کسی کو خطرہ نہیں اور وہ چینی حکومت سے آزاد ہیں۔ تاہم بعض ممالک نے ہواوے کی مصنوعات کا 5G موبائل نیٹ ورک میں استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ بہر حال ابھی تک برطانیہ نے باضابطہ پابندی سے گریز کیا ہے۔