فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیہ نے بحرین میں آیندہ ماہ امریکا کی سربراہی میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس کے بارے میں لاعلمی ظاہر کر دی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں سے اس سلسلے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ "ہم رقم کے بدلے میں اپنے سیاسی حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔”
امریکا نے اتوار کو آیندہ ماہ بحرین میں غزہ اور غربِ اردن میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی سے متعلق ایک کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طویل عرصے سے التوا کا شکار اسرائیلی فلسطینی امن منصوبے کا پہلا حصہ ہے۔
لیکن فلسطینی وزیراعظم محمد اشتیہ نے سوموار کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ "(ان کی) کابینہ سے اس مبیّنہ ورکشاپ، اس کے موضوع اور حاصلات کے بارے میں کوئی مشاورت کی گئی ہے اور نہ انھیں اس کے وقت کے بارے میں کچھ بتایا گیا ہے۔”
البتہ انھوں نے فوری طور یہ نہیں کہا ہے کہ آیا فلسطینی 25 اور 26 جون کو منامہ میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔ امریکی حکام کے مطابق اس کانفرنس میں یورپ، مشرقِ اوسط اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے مندوبین اور کاروباری شخصیات شرکت کریں گی اور بعض ممالک کے وزرائے خزانہ بھی شریک ہوں گے۔
محمد اشتیہ نے مشرقِ اوسط کے دیرینہ تنازع کے حل کے لیے فلسطینیوں کے دو ریاستوں پر مبنی امن معاہدے کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔ فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل اپنی آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس کا دارالحکومت مشرقی القدس ہو گا جبکہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا ناقابل تقسیم دارالحکومت قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے علاقے میں قائم کردہ یہودی بستیوں پر بھی اپنی خود مختاری کا اعلان کر سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کے اب تک خفیہ مگر مجوزہ منصوبے میں دونوں فریقوں کو کچھ سمجھوتے کرنا ہوں گے مگر فلسطینیوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کے جواب میں امریکا نے فلسطینیوں کی امداد بند کر دی تھی جس کے نتیجے میں غزہ اور غربِ اردن کے مکین فلسطینی مزید معاشی مشکلات سے دوچار ہوچکے ہیں۔
محمد اشتیہ نے کابینہ کے اجلاس میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "فلسطینی اتھارٹی کو آج جس بحران کا سامنا ہے، یہ ہمارے خلاف سیاسی رعایتیں حاصل کرنے کے لیے شروع کی گئی معاشی جنگ کا نتیجہ ہے مگر ہم بلیک میل ہوں گے اور نہ ہم رقم کے بدلے میں اپنے سیاسی حقوق کی تجارت کریں گے۔”