فلسطین کے علاقے مقبوضہ مغربی کنارے کو جہاں صہیونی ریاست کی قائم کردہ یہودی کالونیوں کے ذریعے تقسیم کیا گیا ہے وہیں فلسطینی علاقوں میں قائم کردہ نسلی دیوار نے بھی فلسطینی شہر اور قصبے ایک دوسرے سے الگ کر دیے ہیں۔ یہ نسلی دیوار صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنانےکے لیے تیار کی ہے۔ زیادہ تر یہ دیوار غرب اردن اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں کے درمیان واقع ہے۔
اگرچہ یہ دیوار بعض اسمگلر پیشہ لوگ بھی عبور کرتے ہیں کہ فلسطینی شہریوں کی جانب سے دیوار کو نقب لگا کر دیوار کی دوطرف جانے کی کوششوں کے دوران کئی بار گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔
فلسطینی نوجوان اسرائیلی ریاست کی قائم کردہ کنکریٹ کی مضبوط دیوار کو بھی نقب لگا کر اس میں داخل ہوجاتے ہیں۔ غرب اردن کے مقامی فلسطینی نوجوان احمد نے بتایاکہ اس نے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں جانے کے لیے اجازت نامہ کے حصول کی کوشش کی مگر انہیں اس میں بہت زیادہ مشکل اور دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد وہ بالآخر نسلی دیوار کوعبور کر کے دوسری جانے پر مجبور ہوا۔
اس نے بتایا کہ دیوار فاصل کو نقب لگانے یا اسے عبور کرنے کے لیے ویران مقامات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ دیوار کی نوعیت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ جہاں دیوار زیادہ بلند نہ ہو تو اسے سیڑھی کی مدد سے عبور کیا جاتا ہے۔ جہاں دیوار پتلی ہو تو اسےنقب لگا کر اس کی دوسری طرف جھانکا جاسکتا ہے۔ زیادہ تر فلسطینی نوجوان اس وقت دیوار میں نقب لگا دیتے ہیں جب اسے تازہ تازہ تعمیرکیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس نے بتایا کہ گذشتہ کچھ برسوں سے وہ کئی دوسرے ملازمین کے ساتھ مل کر دیوار فاصل کو عبور کرتا رہا ہے۔
نئے مواقع
غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے مغربی قصبے الطیبہ میں فلسطینی گذشتہ کئی سال سے صہیونی ریاست کی طرف سے تیار کردہ دیوار فاصل کو نقب لگا کر اسے عبور کر دیتے ہیں۔ فلسطینیوں کو دیوار فاصل کو نقب لگانے سے روکنے کے لیے صہیونی فوج فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈائون کرتی ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینی نوجوان دیوار کو سوراخ کرنے یا اسے سیڑھیوں کی مدد سےعبور کرنے کے الزام میں صہیونی جیلوں میں پابند سلاسل ہوتے ہیں۔
الطیبہ قصبے کے محامید خاندان نے بتایا کہ دیوار فاصل کےقریب جانے سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ جگہ جگہ اسرائیلی فوج نے کیمرے لگا رکھے ہیں۔ اس کے باوجود فلسطینی شہری نسلی دیوار کو سوراخ کر کے دوسری طرف جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
مقامی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کی تعمیر کردہ دیوار فاصل بعض مقامات پر مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔ فلسطینی نوان دیوار فاصل کو سیڑھیوں کی مدد سے عبور کر کے دوسری طرف پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔