ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے 71 سال کے بعد بھی فلسطینیوں کی مشکلات اور پریشانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ فلسطینیوں کو ہر گذرنے والے لمحے میں ایک نئی مشکل اور آزمائش کا سامنا رہتا ہے۔
15 مئی 1948ء کو فلسطین میںبصہیونی ریاست کے قیام کے روز پیدا ہونے والے فلسطینی آج 71 سال کے ہوگئے ہیں۔ انہی میں ایک ولید المصری ہیں جو 16 مارچ 1948ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی اور فلسطینیوں کی النکبہ کا عرصہ دونوں برابر چل رہے ہیں۔
النکبہ جسے فلسطینی قوم نے ایک اصطلاح کے طور پر اختیار کیا۔ لاکھوں فلسطینیوں کی جبری ھجرت، ہزاروں کے شہید کیے جانے اور اپنے گھر بار سے محروم ہونے کے مصائب کو صرف ایک لفظ ‘النکبہ’ میں سمو دیا گیا۔ سنہ 1948ء کو پیدا ہونے والا ہر فلسطینی النکبہ کی زندہ علامت ہے۔
موروثی شہادتیں
النکبہ کی یادوں میں ولید المصری کا قصبہ بھی دلچسپ ہے۔ وہ 16 مارچ 1948ء کو پیدا ہوا۔ اس دن کو ‘یوم سقطو یافا’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
المصری صہیونی ریاست کے قیام کے وقت مولود تھے۔ اس لیےانہوں نے اپنی آنکھوں سے شہداء کی لاشوں کے ڈھیر دیکھے نہ گولوں کی آوایں سنیں اور نہ ہی تباہی اور بربادی دیکھی تاہم انہوں نے اپنی ماں اور دیگر اقارب سے داستانیں سنی اور وہ آج تک انہیں یاد ہیں۔
انہوں نے ماں سے سن رکھا ہے کہ یافا پر صہیونی مافیائوں نے بمباری شروع کی۔ یافا شہر میں فلسطینیوں کی گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اس وحشیانہ بمباری کے نتجے میں ہزاروں فلسطینی شہید ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کشتیوں پر سوار ہو کر شام، لبنان اور قاہرہ جانے کے آپشن تھے مگر انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آیا وہ ھجرت کر کے کہاں جائیں۔
ولید المصری کا کہنا تھا کہ میرے خاندان کے لوگ کشتی پرسوار نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی ہم ھجرت نہیں کرنا چاہتے تھے مگر آخر کار ہمیں ھجرت کرکے اردن جانا پڑا۔
المصری نے بتایا کہ مجھے النکبہ کے واقعات یاد نہیں کیونکہ میں اس وقت شیر خوار تھا مگر میری ماں نے مجھے بتایا کہ ہمارے بہت سےعزیزو اقارب ھجرت کرکے شام اور کچھ لبنان چلے گئے جبکہ ہم لوگ اردن آگئے تھے۔
نہ ختم ہونے والی ھجرت
ولید المصری نے کہا کہ النکبہ نے ہمارے خاندان سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ میرے والد گھر واپسی کی کوشش کےدوران یہودی آباد کاروں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہوچکے تھے۔ ہمیں اردن میں موجود ہمارے اقارب کی طرف سے عمان آنے کو کہا گیا اور ہم اردن آگئے۔
ایک سوال کے جواب میں ولید المصری کا کہنا تھا کہ غربت اور تنگ دستی نے ہمیں فاقوں پر مجبور کر دیا تھا۔ آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی کام کاج مل رہا تھا۔ میں نے صرف بہ مشکل میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد روزگار کے لیے کویت چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کی وجہ سے میں زیادہ عرصہ کویت میں قیام نہ کر سکا اور مجھے ایک بار پھر کویت سے ھجرت کرنا پڑی۔ المصری کویت سے عراق چلا گیا جہاں اس نے جامعہ بغداد سے اپنی تعلیم مکمل کی۔
اس کا خیال تھا کہ عراق میں وہ سکون کے ساتھ اپنے خاندان کے ساتھ زندگی بسر کر سکے گا مگر امریکا نے عراق پر چڑھائی کردی اور بغداد پر وحشیانہ امریکی بمباری کے نتیجےمیں اس کا خاندان بھی شہید ہوگیا۔ اسے چوتھی بار عراق سے ھجرت کر کے پھر اردن آنا پڑا۔
عراق میں المصری کا خاندان جس میں اس کے چار بچے اور دو بچیاں تھیں پر مشتمل تھا۔ بمباری میں اس کے بچے اور بچیاں شہید ہوگئے اور وہ اس وقت الھاشمی کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔
المصری کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ اگر مہاجرین دنیا میں موجود ہیں تو وہ فلسطینی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے وطن کے لیے ہجرت کی بلکہ پر سکون زندگی جینے کے لیے بھی انہیں بار بار ایک سے دوسرے ملک میں نقل مکانی کرنا پڑی۔