فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں 30 مارچ 2018ء سے جاری حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی مظاہروں کے دوران جہاں ایک طرف اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں سیکڑوں فلسطینی شہید ہوئے، وہیں فلسطینی مظاہرین سرحد کی دوسری طرف پھینکے گئے آتش گیر گولوں سے یہودی کاروباری حضرات اور کسانوں کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہودی آبادکار فلسطینی مظاہرین کے آتشیں گولوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان پر چلا اٹھے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق یہودی آباد کاروں نے شکایت کی ہے 14 ماہ سے غزہ میں جاری حق واپسی مظاہروں کے نتیجے میں ان کے کاروبارہ تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔
عبرانی ٹی وی چینل ‘2’ سے بات کرتے ہوئے سرحد پار کے یہودی آباد کاروں نے کہا کہ غزہ کے اندر ہونے والے مظاہروں نے ہمارے کاروبار تباہ کر دیئے ہیں۔ سرحد پر مسلسل کشیدگی کی وجہ سے لوگوں نے خریداری کم کر دی ہے اور بازار سنسان ہیں۔
ایک سیاحتی کمپنی کے مالک ‘جیون کھوا’ نے کہا کہ ان کے پاس گاہک نہیں آتے جس کے باعث وہ کمپنی کے دفاتر بند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سرحدی علاقے ‘سدیروت’ کے بارے میں ٹی وی چینل نے بتایا کہ اس شہر میں ہر وقت فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹوں کا خوف طاری ہے جس کے باعث کاروبار تباہ ہوگئے ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ میں 60 ہفتوں سے جاری حق واپسی تحریک کے دوران اب تک 300 فلسطینی شہید اور 17 ہزار سے زاید زخمی ہوچکے ہیں۔