ماہ صیام کے آتے ہی مقبوضہ بیت المقدس کے روزہ دار اور قبلہ اول کے نمازی جن مصائب وآلام کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ مصائب اور مشکلات فلسطینی قوم کی طرف سے درپیش ہیں۔ ماہ صیام کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے، بیت المقدس، غزہ اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے ہزاروں فلسطینی نماز جمعہ کی ادائی کے لیے قبلہ اول میں آنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کایہ سفر پر خطر اور خارزاروں سے کم نہیں ہوتا۔
چپے چپے پر موجود صہیونی فوجی، پولیس اہلکار، یہودی آباد کار اور صہیونی انٹیلی جنس اداروں کے اہلکار ہلکے کتوں کی طرح راستوں میں کھڑے ہوتے ہیں جو فلسیطنیوں کو قبلہ اول تک رسائی سے روکتے ہیں۔ یوں القدس اور دیگر فلسطینی علاقوں کے باشندوں کا قبلہ اول تک کا سفر قدم قدم پر رکاوٹوں سے بھرپور ہوتا ہے۔ فلسطینیوں پر صہیونی حکام کی طرف سے مسلط کردہ پابندیوں اور قدغنوں کے باعث ان کی قبلہ اول میں عبادت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ کبھی عمر کی قید لگا دی جاتی ہے اور کبھی کسی اور بہانے سے فلسطینیوں کو قبلہ اول تک رسائی سے روکا جاتا ہے۔



جُمعہ کی صبح کو دسیوں ہزار فلسطینیوں نے غرب اردن اور دوسرے فلسطینی علاقوں سے قبلہ اول کا سفر شروع کیا۔ ایک طرف سے صہیونی حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینیوں کو قبلہ اول میں عبادت کی ادائی کی ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے مگر اس نام نہاد سہولت کو پابندی کا نام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ صہیونی فوج نے مسجد اقصیٰ میں مردوں کے داخلے کے لیے عمر کی کم سے کم حد 60 سال اور خواتین کی 40 سال مقرر کی۔
غرب اردن سے آنے والے فلسطینیوں کو القدس داخلے کے لیے ‘قلندیہ’ چیک پوسٹ سے گذرنا پڑتا ہے۔ جمعہ کےروز جب فلسطینی قبلہ اول پہنچنے کے لیے اس چوکی پر پہنچے تو وہ غیر معمولی پابندیوں کا سامنا کر کے حیران رہ گئے۔ایک مقامی شہری مخلص الصباح نے بتایا کہ انہیں قبلہ اول تک پہینچنے کے لیے 3 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ اس دوران انہیں 4 اسرائیلی چیک پوسٹوں سےگذرنا پڑتا ہے۔ ہرچیک پوسٹ پر طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں اور فلسطینیوں کو شدید نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس نے سوال کیا کہ اسرائیلی حکام جن سہولیات کا دعویٰ کرتے ہیں آخر وہ کہاں ہیں؟
کڑی پابندیاں
مسجد اقصیٰ تک پہنچنے کے لیے فلسطینیوں کو قبلہ اول کے قریب بھی متعدد چوکیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ ان چوکیوں پر قطار میں کھڑے ہونے کی جگہ اتنی تنگ ہوتی ہے کہ اس میں سے بہ مشکل ایک شخص گذر سکتا ہے۔ ان فوجی چوکیوں پر فلسطینی نمازیوں کی تلاشی لینے والے دو دو فوجیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ فوجی ہر گذرنے والے کی مکمل تلاشی لیتے ہیں۔ وہ شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد جس کو چاہتے ہیں قبلہ اول میں جانے دیتے اور جس کو چاہتے ہیں روک دیتے ہیں۔


جنین کے رہائشی خالد عواد نے بتایا کہ چوکیوں پر صرف دوفوجیوں کی تعیناتی سے فلسطینیوں کی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ اگر فلسطینیوں کو آسانی کے ساتھ گذرنے دیا جائے تو چیک پوسٹوں پر تلاشی کے کام کے لیے درجنوں فوجی بھی کافی نہیں ہوں گے۔ تلاشی کے بعد فلسطینی نمازیوں کو 40 میٹر لمبی غار سے گذرنا پڑتا ہے۔ یہ غار نما راستہ تنگ ہوتا ہے اور اس کی اونچائی بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کو گویا رینگ کر نہایت ذلت آمیز انداز میں وہاں سے گذرنا پڑتا ہے۔
معمر افراد کی تذلیل
جنوبی نابلس کے مادما قصبے کے رہائشی 60 سالہ الحاج محمد قط نے صہیونی حکام کی طرف سے لگائی گئی رکاوٹوں پر سخت غم وغصے کا اظہار کیا۔ مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ برسوں میں مسجد اقصیٰ جاتے ہوئے ہم ایک ہی چیک پوسٹ سے گذرتے تھے مگر اب ہمیں ایک کے بجائے چار چار چیک پوسٹوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ جہاں دس منٹ کا پیدل راستہ ہے وہاں ہمیں ایک ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکام چیک پوسٹوں سے گذرنے والے فلسطینیوں کی عمر کا بھی لحاظ نہیں کرتے اور بوڑھے نمازیوں اور روزہ داروں کی بھی ان چیک پوسٹوں پر انتظار کی آڑ میں تذلیل کی جاتی ہے۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ قبلہ اول میں نماز کے لیےآنے کی کڑی شرائط پر پورا اترنے والے سیکڑوں فلسطینیوں کو بھی ان چیک پوسٹوں سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں سابق اسیر علی شواھنہ کو قلندیہ چیک پوسٹ سے قبلہ اول جاتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔


فلسطینی خاتون نمازی امینہ طویل نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکام نے ہمارے ساتھ قبلہ اول نماز کے لیےآنے والے علی شواھنہ کو حراست میں لینے کے بعد جیل میں ڈال دیا۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی فوج کی طرف سے عایدکی گئی پابندیوں کے باوجود گذشتہ جمعہ کو ایک لاکھ 80 ہزار فلسطینیوں نے قبلہ اول میں نماز جمعہ ادا کی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام کی رکاوٹیں نمازیوں کو قبلہ اول میں آنے سے روکنے اورانہیں خوفزدہ کرنے کی مذموم کوشش ہے۔