جنگ کی تباہ کاریوں کا ایک پہلو لوگوں کی ھجرت بھی ہے اور ھجرت انسان کو جہاں ایک طرف طرح طرح کے مصائب میں ڈالتی ہے، وہیں یہ آزمائش ھجرت کرنے والوں کے لیے کامیابیوں کے نئے دروازے بھی کھول دیتی ہے۔
جنگیں اسکولوں میں زیر تعلیم طلباءاور طالبات سے ان کے مستقبل کے خواب چھین لیتی ہیں۔ وہ تعلیم کے دوران بنائے گئے تمام خواب اور منصوبے ادھورے چھوڑ کر ایک نئے دیس اور نئی دُنیا میں زندگی کے سپنے اپنی آنکھوں میں بسائے نئی دنیا آباد کرتے ہیں۔
گاہے بگاہے یہ نئی دنیا ان کے لیے کامرانیوں کے دروازے کھول دیتی ہے اور کبھی زندگی کے لیے مصیبوں میں اور بھی اضافہ کرتی ہے۔ مصائب اورآزمائشوں سے بھرپور زندگی میں انسان یا تو حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا امید کا دامن ہاتھ میں پکڑ کر کامیابی کی طرف قدم بہ قدم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
ایک ایسی ہی کہانی فلسطینی پناہ گزین دوشیزہ ‘ربیٰ محمود’ کی ہے جس نے چار سال قبل شام میں جنگ سے جان بچا کر سات سمندر پار اسکنڈنیوین ملک سویڈن میں اپنا ٹھکانہ بنایا۔
چوبیس سالہ ربا محمود نے مصائب و مشکلات کا سفر طے کرتے ہوئے نہ صرف یورپی معاشرے میں اپنی جگہ بنائی بلکہ پناہ گزینوں کی ترجمان بن کر ابھری ہیں۔ ربا نے ایک سال سے کم وقوت میں سویڈش زبان سیکھ لی اور سویڈن کی ‘لونڈ’ یونیورسٹی میں طب کے شعبے میں داخلہ لینے میں بھی کامیابی حاصل کرلی۔ حالانکہ وہ شادی شدہ اور ایک بچی کی ماں ہیں۔
ایک نیوز نیٹ ورک کو دیے گئے انٹرویو میں ربیٰ نے کہا کہ میں نے شام میں ڈیڑھ سال تک ہیومن میڈیکل کے شعبے میں تعلیم حاصل کی۔ سویڈن میں آنے کے بعد میں نے ایک سال کے کم عرصے میں سویڈش زبان کی تعلیم حاصل کرلی۔ پردیسی زبان سیکھنے کے بعد اب میں اگلے مرحلے یعنی تعلیم کے حصول کی طرف جانے کی تیاری کر رہی ہوں۔
ربیٰ پر بہ یک کئی ذمہ داریاں ہیں۔ وہ ایک بچی کی ماں، ایک بیوی اور سویڈن میں پناہ گزینوں کی ترجمان کے ساتھ ساتھ بچوں کے ایک اسکول میں 10 گھنٹے تدریس اور دیگر کام انجام دیتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ سویڈن میں اس کی کامیابی میں اس کی محنت، خود اعتمادی اور لوگوں سے تعلقات کے قیام میں پیش پیش رہنے نے اہم کردار ادا کیا۔ ربا محمود کی تیزی کے ساتھ ترقی اور محنت کے چرچے اس وقت سویڈش میڈیا میں بھی عام ہیں۔ اسے بالعموم تمام پناہ گزینوں بالخصوص فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ایک مثال قرار دیا جا رہا ہے۔