اسرائیل میں 9 اپریل کو ہونے والے کنیسٹ کے چنائو کے بعد کے بعد حکومت کی تشکیل کے لیے صہیونی انتہیا پسندوں کی جوڑ توڑ جاری ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کی انتہا پسند جماعتوں نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو حکومت میں شمولیت کے بدلے اپنی شرائط پیش کی ہیں۔ انتہا پسند جماعتوں کی شرائط کے اہم نکات میں غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
عبرانی اخبارات کے مطابق وزیراعظم نیتن یاھو نہ صرف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں بلکہ وہ نئی حکومت کو عدالتی اور قانونی تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ آئندہ عرصے کے دوران انہیں کسی قسم کے مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف اسرائیل کی سخت گیر مذہبی جماعتیں نیتن یاھو اور ان کی جماعت لیکوڈ پر اپنی شرائط منوانے کے لیے مسلسل دبائو ڈال رہے ہیں۔
دائیں بازو کی اسرائیلی جماعتوں کے اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نئی حکومت غرب اردن کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کی عمل داری میں لائے۔
جمعہ کے روز ‘ماکور ریشن’ نامی عبرانی اخبار کے مطابق دائیں بازو کی جماعتوں کا لیکوڈ پر دبائو ہے کہ وہ حکومت کی تشکیل کے بعد غرب اردن کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کے لیے اقدامات کرے گی۔
رپورٹ کے مطابق ‘جیوش ہوم’ اور نیشنل الائنس نامی سیاسی جماعتوں نے تعلیم اور قانون کی وزارتیں مانگی ہیں۔
اس کے علاوہ ‘شاس’ نے لیکوڈ کے ساتھ مذاکرات میں تین وزارتیں مانگی ہیں۔ وہ وزارت داخلہ۔ وزارت مذہبی امور اور ہائوسنگ کی وزارت کی طلب گار ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جماعتوں کی طرف سے وزارت خزانہ، تعلیم کا قلم دان مانگنے کے ساتھ دستور سازی کمیٹی کی قیادت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اخباری رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی انتہا پسند جماعتوں کی حکومت میں شمولیت کی شرائط میں القدس اور غرب اردن پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ نئی حکومت بیت المقدس سے دست بردار نہیں ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ غرب اردن کو بھی صہیونی ریاست کی عمل داری میں لایا جائے گا۔