مزدوروں کا عالمی دن آیا اور گذر گیا مگر فلسطینی مزدوروں کی کسمپرسی اور محرومیوں کا ازالہ نہ ہو سکا۔ فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے میں بسنے والے ہزاروں فلسطینی مزدور صبح تین بجے جب لوگ گہری نیند میں ڈوبے ہوتے ہیں رزق کی تلاش میں سنہ 1948ء کے علاقوں کے سفر کے لیےچل پڑتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سفر ان کے لیے آزمائش بھی ہوسکتا ہے کیونکہ انہیں قدم قدم پر یہودی شرپسندوں اور اسرائیلی فوج کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
غرب اردن کے ایک مقامی مزدور نےاپنے اصل نام کے بجائے ابو محمد کنیت کے ذریعے متعارف کرایا۔ اصل نام مخفی رکھنے کا مقصد صہیونی فوج کی طرف سے کسی قسم کا پچھا کرنے سے بچنا تھا۔ اس نے کہا کہ غرب اردن میں حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث محنت مزدوری کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے وہ محنت مزدوری اور کام کاج کی تلاش کے لیے سنہ 1948ء کےمقبوضہ علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔
اس نے کہا کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں سفر بہت تکلیف دہ اور مشکلات سے بھرپور ہوتا ہے۔ انہیں کام کے لیے صہیونی حکام سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کوخطرے میں ڈال کرمقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاتے ہیں۔ وہاں بھی انہیں نسل پرستانہ سلوک کا سامنا رہتا ہے۔
مشکلات سے بھرپور سفر
ابو محمد نے بتایا کہ وہ معمول کے مطابق مقامی وقت کے مطابق صبح 3 بجے فجر سے قبل گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ دیگر فلسطینی مزدور بھی اس وقت گھروں سے نکلتے ہیں۔ میں گھر سے نکل کر دیوار فاصل میں لگائے گئے ایک نقب میں جاتا ہوں جہاں سے میرا ایجنٹ مجھے کام کی جگہ پر لے جاتا ہے۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے بار بار کے تعاقب کے باعث انہیں کئی بار واپس آنا پڑتا ہے۔
اس نے کہا کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں داخل ہونے کے بعد انہیں قدم قدم پر صہیونی حکام اوریہودی آبادکاروں کی طرف سے بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ابو محمد کا کہنا تھا کہ جو فلسطینی سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اجازت نامے کے بغیر جاتے ہیں ان کی مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر اسرائیلی پولیس انہیں گرفتار کر لے تو انہیں بھاری جرمانوں کی ادائیگی کے بعد رہائی نصیب ہوتی ہے۔