امریکی ریاست ٹیکساس کی مرکزی عدالت کے جج نےاسرائیلی بائیکاٹ کی مُہم پر پابندی سے متعلق قانون پرعمل درآمد روکنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے بعد اسی ریاست میں نا انصافی کا شکار ایک فلسطینی نژاد معلمہ کوبھی انصاف کی فراہمی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ریاست ٹیکساس کے اوسٹن شہر میں قائم عدالت کے جج رابرٹ بیٹمن نے اسرائیلی ریاست کےبائیکاٹ کی مہم پر پابندی لگانےکو اظہار رائے کی آزادی پر پابندی کے مترادف قرار دیا اور کہا ہے کہ ریاست میں مروجہ اسرائیلی بائیکاٹ پر پابندی سے متعلق قانون پرعمل درآمد روک دیا جائے۔
خیال رہے کہ امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک قانون چلا آ رہا ہے جس کے تحت ریاست میں سرکاری یا نجی داروں میں ملازمت کرنے والے افراد کو ایک معاہدہ کرنا ہوتا ہے جس کےتحت وہ صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کے لیےہونے والی کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لےسکتے۔ اس حوالے سے ایک فلسطینی معلمہ نے اس شرط کو ماننے سے انکارکردیا جس کے بعد اسےملازمت سےنکال دیا گیا تھا۔
امریکی جج کے فیصلے کے مطابق اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے کسی سرگرمی میں حصہ لینا امریکی مفاد کے خلاف نہیں بلکہ یہ آزادی اظہار رائے کاحق ہے۔
گذشتہ برس دسمبر میں امریکا میں شہری آزادی کے لیے سرگرم اتحاد نے مذکورہ قانون کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
فلسطینی نژاد مسلمان معلمہ بھیہ عماوی نے اسرائیلی بائیکاٹ میں شامل نہ ہونے کے معاہدے پردستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جس کےبعد اسے اسکول سےنکال دیا گیا۔ اس نے اس ریاست میں مروجہ قانون کے خلاف اپیل کی تھی جس کےبعد انسانی حقوق کے مندوبین نے بھی درخواست میں شمولیت اختیارکی تھی۔