کل 9 اپریل کو اسرائیل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر انتہاء پسند اور نسل پرست یہودیوں کو اکثریت حاصل رہی۔ اگرچہ باضابطہ طور پر کامیاب ہونے والی جماعتوں کے نتائج کا حتمی اعلان نہیں کیا گیا مگر قرائن بتاتے ہیں کہ اسرائیل اس وقت انتہا پسند اور نسل پرست یہودی نیٹ ورک کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے۔ مجموعی طور پر اسرائیل کے پارلیمانی انتخابات میں 37 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا مگر بہت سی جماعتیں گم نامی کی تہہ میں ہیں۔ تاہم سابق آرمی چیف جنرل بینی گانٹز اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے درمیان کانٹے دار مقابلہ رہا۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے اسرائیلی پارلیمانی انتخابات کے اسرائیل کے سیاسی مستقبل پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اس وقت انہا پسندوں اور نسل پرست یہودیوں کے نرغے میں ہے اور ریاست کے تمام اہم ادارے اور کلیدی عہدے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے پاس ہیں۔ جب کہ بائیں بازو کا ریاستی اداروں میں کوئی وجود نہیں۔
نتائج کا پس منظر
اسرائیلی امور کے تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے متعدد منظرنامے بن سکتے ہیں۔ ان میں قریب ترین منظر نامہ یہ ہے کہ اسرائیل کی انتہا پسند جماعتیں آئندہ ایک بار پھر حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گی۔
عدنان ابو عامر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجی جرنیلوں کی اعتدال پسند اور دائیں بازو کی جماعتیں مل کر حکومت سازی کر سکتی ہیں۔ بڑی جماعتیں چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اندر سمو سکتی ہیں۔
ابو عامر کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل کی 37 سیاسی جماعتوں نے 25 انتخابی اتحادعوں کے ساتھ کل نو اپریل کے انتخابات میں حصہ لیا۔ مجموعی طور پر 63 لاکھ رائے دہندگان نے ووٹ ڈالا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق نیتن یاھو اور ان کی جماعت پانچویں بار پارلیمانی انتخابات میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ اسرائیل کے بانی ڈیوڈبن گوریون سے زیادہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے ہیں۔
انتہا پسندوں کا شور شرابہ
اسرائیل کے انتہا پسند یہودی حلقوں نے ایک بار پھر پورے زور وشور کے ساتھ انتہا پسند سیاسی جماعتوں کو ووٹ دے کر انہیں کامیاب کیا ہے۔ اسرائیلی انتخابات کا اصل کھلاڑی دائیں بازو کے انتہا پسند ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار علاء الریماوی کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں سب سے بڑی سیاسی جماعتوں انتہا پسندوں کی ہیں۔ اب کی بار بھی یہودی انتہا پسند جماعتیں کامیاب ہوئی ہیں۔
انتخابات کے فلسطین پر اثرات
اسرائیل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے جو بھی نتائج ہوں وہ بہرحال فلسطین پر ضرور انداز ہوتے ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار علاء الریماوی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی انتہا پسند سیاسی جماعتوں کی کامیابی فلسطین اور قضیہ فلسطین پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کہنا ہے کہ انتخابات کے نتائج اسرائیلی سیاسی جماعتوں کو فلسطین سے متعلق اہم نوعیت کے فیصلے کرنے کی اتھارٹی فراہم کریں گے۔ خاص طورپر صدی کی ڈیل نامی امریکی امن اسکیم اور غزہ جیسے مسائل کے حوالے سے اسرائیل فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔
فلسطینی تجزیہ نگار ظریفہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کا عنصر خطے میں استحکام کا موجب بنے گا۔ دائیں بازو کے انتہا پسند جماعتوں کی کامیابی خطے میں استحکام کا سبب نہیں بن سکتی۔ اگر فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے اور فریقین کوئی تاریخی سمجھوتہ نہیں کرپاتے تو خطہ ایک نئی کشیدگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔