شنبه 16/نوامبر/2024

فلسطینی پناہ گزین خاتون کی ھجرت کے مصائب کی دلخراش داستان!

منگل 9-اپریل-2019

"ترکی پہنچنے کے فورا بعد ہم یہ ملک چھوڑ کر یورپ روانہ ہوجائیں گے”۔ یہ الفاظ ام ولید نامی ایک فلسطینی پناہ گزین خاتون کے شوہر کے ہیں جو اکثر اپنی بیوی بچوں سے شام سے ھجرت کی بات کرتے ہوئے یہ الفاظ دہراتا۔

شام میں خانہ جنگی کے باعث زندگی کتنی مشکل ہوگئی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس تحریر میں ایک خاتون کے مصائب وآلام اور ھجرت کی پریشانیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ام ولید اس کا اصل نام نہیں بلکہ اس کی کنیت ہے۔ اس کا  کہنا ہے کہ ھجرت کی مصیبت کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ اگر وہ لکھنا چاہے تو کئی کئی دفتر خشک ہوسکتے ہیں۔

شام سے ھجرت ‘نکبہ’ سے کم نہیں۔ قہر والم کے جتنے مفہوم ہوسکتے ہیں وہ ان مصائب کے بیان کے لیے کم نہیں۔ اگر کوئی ان خوفناک یادیوں کو دماغ سے نکالنا چاہے تو اس کے لیے ممکن نہیں۔

ھجرت کے قافلے

ام ولید کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی ھجرت کا آغاز دارالحکومت دمشق کے جنوب میں ایک قافلے کی شکل میں کیا۔ ہم سفر کرتے ہوئے شمالی حلب کے نواحی علاقے میں واقع ‘ابو الزندین’ چوکی پر پہنچے۔ یہ شامی فوج کی اس علاقے میں اس وقت آخری چوکی تھی۔ دمشق سے حلب تک ہم ایک بس کے ذریعے مسلسل 27 گھنٹے کا مصائب وآلام سے بھرپور سفر کیا۔ یہ چوکی ہماری امیدوں کے آغاز کا مقام ہو سکتا تھا کہ یہاں ہمیں جس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ بیان نہیں کی جاسکتیں۔ یہاں تصاویر، الفاظ اور نعرے سب کچھ مختلف تھا۔

ام ولید کا کہنا ہے کہ میرا شوہر زیادہ انتظار نہیں کر سکتا تھا مگر ہمیں یاد نہیں کہ سرحد پار کرنے کے لیے ہم نے کتنی ہی بار کوشش کی۔ مگر ہم ادلب سے ترکی داخل نہیں ہوسکے۔ اس کے بعد ہمارے پاس ‘الجندرمہ’ گزرگاہ تھی جس کے بارے میں المناک اور ہولناک قصے ہم نے سن رکھے تھے۔ اس راستے سے جانا موت کو دعوت دینا، انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھنا یا نشانہ بازوں کی فائرنگ کا نشانہ بننا تھا۔

اس خوفناک صورت حال میں ام ولید کا شوہر بھی اس کا ساتھ چھوڑ گیا۔ اب اس کے پاس مصائب وآلام اور تین بچوں کا اثاثہ تھا۔

اس کا کہنا ہے کہ اگرچہ امید تھی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی توہماری مدد کرے گا مگرشوہر کے نہ ہونے سے عدم تحفظ کا شدید احساس کھائے جا رہا تھا۔

میں یہ سوچ رہی تھی کہ اگرکل میرے بچے کسی اسکول میں گئے اور اسکول والوں نے پوچھ لیا کہ ان کے ماں اور باپ کہاں ہیں تو میں انہیں کیا جواب دوں گی۔

اس کا کہنا ہے کہ میں ترکی نہ جاسکی مگر ادلب کےایک پناہ گزین کیمپ میں پہنچ گئی جہاں بچوں کو ایک اسکول میں داخل کرانے کا موقع بھی مل گیا۔ میں خود ایک انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہوگئی اور زندگی کی گاڑی ایک بار پھر چلانے کا موقع مل گیا۔ میں نے خواتین کے ساتھ میل جول قائم کیا اور مجھے پتا چلا کہ میرے قریب آنے والی بیشتر خواتین بیوہ ہیں۔

ام ولید پناہ گزین کیمپ میں واپس نہیں آنا چاہتیں۔ اس کا کہنا ہے کہ کیمپ میں انسانوں میں تفریق اور پتھروں کو ایک دوسرے کے قریب کیا جاتا ہے۔ ادلب میں ہماری زندگی برباد ہوگئی تھی۔ میں اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کے بارے میں فکرمند تھی کیونکہ ان کی عمر تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔

زندگی میں مثبت تبدیلیوں کے بارےمیں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ام ولید نے کہا کہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ہم کب تک اسی طرح کے حالات کا شکار رہیں گے اور کب تک استقامت کا مظاہرہ کریں گے۔ بچے تیزی سے بڑے ہو رہے ہیں۔ وہ آپس میں لڑتے ہیں اور بعض اوقات بغاوت پر آمادہ ہوتے ہیں۔

بات کو سمیٹے ہوئے ام ولید کا کہنا تھا کہ میں اپنی ان تمام بہنوں جن کے شوہر نہیں رہے کو مشورہ دوں گی کہ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ اپنے بچوں کو ان کا مقام دلانے کے لیے کوشش کریں۔ فلسطینی خواتین کے لیے خاص طور پر مشورہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے بہتر انداز میں جدو جہد کرسکیں۔

مشکلات اور چیلنجز

شام میں فلسطینی سماجی کارکن اور فلاحی تنظیم کے عہدیدار احمد حسین نے کہا کہ شام میں اور بیرون ملک فلسطینی پناہ گزین خواتین کو جو مشکلات درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ پیسے کی عدم دستیابی ہے۔ پناہ گزین خواتین کو کرائے پر گھر لینے کے لیے ماہانہ 100 سے150 ڈالر چاہیے ہوتے ہیں۔ شام میں اسدی فوج کی بمباری کے باعث فلسطینی پناہ گزین خواتین کو رہائش کےحصول میں غیرمعمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حسین کا مزید کہنا ہے کہ مشکل معاشی حالات میں فلسطینی خواتین بالخصوص بیوائوں کو مکان کے حصول اور خوراک کے حصول میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس رجسٹرڈ 36 ہزار بیوہ خواتین ہیں جن کے پاس کوئی معقول ذریعہ معاش نہیں۔ ان میں سے175 خواتین 343 یتیم بچوں کی کفالت کرتی ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی