دوشنبه 05/می/2025

یہودی توسیع پسندی کا مخالف کارکن فلسطینی اتھارٹی کے زیر عتاب

جمعہ 29-مارچ-2019

فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی صہیونی سرگرمیوں کے خلاف سرگرم ایک فلسطینی سماجی کارکن اور صحافی ان دنوں حیران کن طور پر فلسطینی اتھارٹی کے زیرعتاب ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی ایک نام نہاد عدالت میں صحافی اور سماجی کارکن عیسیٰ عمرو کے خلاف 18 مختلف الزامات کے تحت مقدمہ کی کارروائی جاری ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں حتیٰ کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی فلسطینی اتھارٹی کی اس انتقامی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے عیسیٰ عمرو کے خلاف ٹرائل کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا ہے۔ اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ فلسطین میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے صہیونی حربوں کے خلاف سرگرم ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ فلسطینی اتھارٹی جسے آئینی اور اصولی طور پر ایسے کارکنوں کا معاون اور سرپرست ہونا چاہیے وہی ان کی دشمنی پر اتر آئی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق کل جمعرات 28 مارچ 2019ء کو عیسیٰ کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کے خلاف اٹھارہ الزامات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ عمرو نے ایک یوتھ گروپ تشکیل دے رکھا ہے جو فلسطین میں یہودی آباد کاری کی سرگرمیوں بالخصوص الخلیل شہر میں مصروف عمل ہے۔

ڈیڑھ درجن الزامات

فلسطینی اتھارٹی کی نام نہاد عدالت نے عیسیٰ عمرو نے پر 18 مختلف الزامات عاید کیے گئے ہیں۔ ان میں سائبر جرائم میں ملوث ہونے کا الزام، امن عامہ کو نقصان پہنچانے، فرقہ وارانہ نعروں کے فروغ، زبان درازی اور سنگین نوعیت کے الزامات عاید کیے گئے ہیں۔ سنہ 1960ء  کے انسداد جرائم سے متعلق قانون کے تحت کم سے کم اڑھائی سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

عیسیٰ عمرو کو عباس ملیشیا نے 4 ستمبر 2017ء کو حراست میں لیا۔ اس پر فیس بک پر فلسطینی اتھارٹی پر تنقید کا الزام عاید کیا گیا۔ صرف سوشل میڈیا پر تنقید کی پاداش میں اسے حراست میں لیا گیا۔

فلسطینی اتھارٹی کی پولیس اور انٹیلی جنس حکام نے 2017ء کو حراست میں لینے کے بعد عمرو کو سات دن تک وحشیانہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد انہیں کئی روز تک قید تنہائی میں رکھا گیا اور طویل جسمانی تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور 1400 امریکی ڈالر کی ضمانت پر رہا کیا گیا۔

مقدمہ کی کارروائی کا آغاز

رہائی کے ایک ہفتے کے بعد کہا گیا کہ عیسیٰ عمرو کے خلاف تمام الزامات مسترد کر دیے گئے ہیں اور ان کا کیس ختم کر دیا جائے گا۔ مگر گذشتہ ماہ ان کا کیس دوبارہ کھول دیا گیا۔ مقصد صرف انہیں خوف زدہ کرنا اور ہراساں‌کرتے ہوئے فلسطین میں کلمہ حق بلند کرنے سے روکنا تھا۔

فلسطین کی انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خاموش تماشائی ہیں۔ عیسیٰ عمرو کی  گرفتاری اور اس پر جسمانی اور نفسیاتی تشدد پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے آواز بلند کی گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے عیسیٰ عمرو کی گرفتاری اور اس کے ٹرائل کو آزادی اظہار رائے پر براہ راست حملہ قرار دیا۔

مرکزاطلاعات فلسطین کو موصولہ ایک بیان میں  کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر فلسطینی اتھارٹی کی کمزوریوں کی نشاندہی اور فلسطینی علاقوں میں‌ یہودی آباد کاری کی مخالفت کوئی جرم  نہیں مگر فلسطینی اتھارٹی صحافی اور سماجی کارکن کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی