شنبه 16/نوامبر/2024

وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ قرارد ینےکا ٹرمپ کا اعلان، مضمرات کیا ہیں

اتوار 24-مارچ-2019

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ وادی گولان کو اسرائیل کی حاکمیت میں لانے اور اس پر غاصبانہ صہیونی قبضہ تسلیم کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دوسری جانب اسرائیل میں آئندہ ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات سرپر ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی صدر کی طرف سے وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کی  متنازع بحث چھیڑنے کا مقصد کنیسٹ کے انتخابات میں یہودی انتہا پسند جماعتوں بالخصوص بنجمن نیتن یاھو کی جماعت’لیکوڈ’ کو کامیاب کرانے میں مدد کرنا ہے۔

امریکی صدرکی ایک ٹویٹ نے موجودہ امریکی انتظامیہ کی قضیہ فلسطین اور مقبوضہ عرب علاقوں کے بارے میں پالیسی کو بے نقاب کردیا ہے۔ اس وقت نیتن یاھو کو اپنی انتخابی جیت کے لیے سفارتی محاذ پر کسی ایسے ہی بڑے اعلان کی ضرورت ہے جو ان کا ووٹ بنک بڑھانے اور انتہا پسند یہودیوں‌کو  نیتن یاھو کے ساتھ کھڑا کرنے میں مدد فراہم کرے۔

امریکی صدر نے یہ بحث ایک ایسے وقت میں چھیڑی ہے جب دوسری جانب عرب ممالک پہلے اندرونی خلفشار اور جنگوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ شام میں آٹھ سال سےجاری خانہ جنگی نے ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگرچہ عرب ممالک کی طرف سے وادی گولان پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرنے کے امریکی موقف پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے اور عالمی سطح پر روس اور ترکی بھی وادی گولان کے بارے میں امریکی اورصہیونی منصوبہ بندی کی شدید مخالفت کی ہے۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کے بیان کا مقصد مشرق وسطیٰ‌میں ایک نئی گیم شروع کرنے کی کوشش ہے۔

ویب سائیٹ ‘عرب 48’ کے مطابق سابق امریکی صدور میں سے کوئی بھی وادی گولان پراسرائیلی تسلط کی حمایت نہیں‌کرسکا۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی وفاداری کے لیے وادی گولان پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرنے سے قبل مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا۔

اسرائیلی تجزیہ نگار ‘عاموس ہرئیل’ کے ہارٹز میں لکھے مضمون میں فاضل کالم نگار نے لکھا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردینے کا مشکل اعلان کرنے بعد اسرائیل کے لیے کوئی بھی اعلان کرسکتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ القدس کے حوالے سے عالمی اسلام کی طرف سے جو رد عمل سامنے آیا تھا اس کی شدت وادی گولان پر عرب اور عالمی رد عمل سے کم ہوگی۔

 

مختصر لنک:

کاپی