امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان نام نہاد امن منصوبے ‘صدی کی ڈیل’ کے چرچے تو کافی عرصے سے میڈیا میں جاری ہیں۔ مستقبل میں اس اسکیم کے قضیہ فلسطین، علاقائی اور عالمی سطح پر اس کے اثرات کیا ہوسکتے ہیں؟ مرکزاطلاعات فلسطین نے ماہرین کی آراء کی روشنی میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
فلسطین کے مستقبل پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور ‘فیوچر اسٹڈی سینٹر’ کے رکن ولید عبدالحی نے’ کہا کہ صدی کی ڈیل کے نفاذ کے تین ممکنی پہلو ہوسکتے ہیں۔ بعض لوگ اسے بہ خوشی قبول کریں گے۔ کچھ کو بلیک میل کر کے اور انہیں دبائو میں لا کرقبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا جب کہ ایک طبقہ صدی کی ڈیل کی سازش کے نفاذ کی روک تھام کے لیے مزاحمت کرے گا۔
اس حوالے سے ولید عبدالحی تین ممکنہ سیناریو بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدی کی ڈیل کے ذریعے غزہ میں فلسطینیوں کی مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے غزہ کا محاصرہ سخت بھی کیا جاسکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات بحال کر کے مغرب کی بند امداد بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
غزہ کی پٹی میں اس منصوبے کی عمل آوری کے لیے وہاں پر افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سیکیورٹی تعاون مزید بڑھایا جائے گا۔ امریکی امن منصوبے کو قبول کرنے اور مسترد کرنے والوں کو ایک دوسرے کے خلاف دست وگریباں کیا جاسکتا ہے۔
غزہ میں مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیل سرکردہ مزاحمتی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کر سکتا ہے۔ اگر اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی میں بات چیت بحال ہوتی ہے تو اسرائیل اتھارٹی کو غزہ میں داخل ہونے میں مدد کرے گا۔ تاکہ اس کے ساتھ مل کر فلسطینی مزاحمت کو کچلا جاسکے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل میں ہونے والے انتخابات کے بعد ‘صدی کی ڈیل’ کا اعلان کریں گے۔
اسرائیلی حکومت اس کے نفاذ سے قبل امریکا سے کچھ وقت مانگے گی تاکہ کابینہ تشکیل دینے کے بعد وزارتوں کی تقسیم کاری کا عمل مکمل جائے۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ آئندہ مئی میں جیرڈ کوشنر، جان بولٹن، مائیک پومپیو اور ڈیوڈ فریڈ مل کر صدی کی ڈیل کا اعلان کریں گے۔
صدی کی ڈیل کے نفاذ کے حوالے سے درج ذیل امور اہم ہوں گے
فلسطینی سطح پر
ولید عبدالحیی نے کہا کہ صدی کی ڈیل کے ذریعے غزہ میں فلسطینیوں کی مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے غزہ کا محاصرہ سخت بھی کیا جاسکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کےدرمیان مذاکرات بحال کر کے مغرب کی بند امداد بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
غزہ کی پٹی میں اس منصوبے کی عمل آوری کے لیے وہاں پر افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹے کے درمیان سیکیورٹی تعاون مزید بڑھایا جائے گا۔ امریکی امن منصوبے کو قبول کرنے اور مسترد کرنے والوں کو ایک دوسرے کے خلاف دست وگریباں کیا جاسکتا ہے۔
غزہ میں مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے اسرائیل سرکردہ مزاحمتی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کرسکتا ہے۔ اگر اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی میں بات چیت بحال ہوتی ہے تو اسرائیل اتھارٹی کو غزہ میں داخل ہونے میں مدد کرے گا۔ تاکہ اس کے ساتھ مل کر فلسطینی مزاحمت کو کچلا جا سکے۔
غزہ میں مزاحمت کو پابہ زنجیرکرنے کے لیے غزہ گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ غزہ میں فلسطینی گروپوں کو ناکہ بندی اٹھانے کے بدلے میں ہتھیار پھینکنے کی تجویز دی جائے گی اور اس کے ساتھ انہیں غزہ میں رام اللہ انتظامی کی مداخلت کا مطالبہ کیا جائے گا۔
مغربی امداد کی بحالی کے لیے رام اللہ اور اسرائیل کے درمیان خفیہ بات چیت کا ناٹک رچایا جائے گا۔ اگر غزہ کے فلسطینی مزاحمتی گروپ صدی کی ڈیل میں مزاحم ہوئے تو علاقے میں افراتفری پھیلانے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔
علاقائی سطح پر
جہاں تک صدی کی ڈیل کا علاقائی سطح پر اثرات کا تعلق ہے تو یہ عرب ممالک کے لیے بھی ایک امتحان ہوگا۔ عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے دبائو میں لایا جائے گا۔ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی۔ حکومتی عدم استحکام سے بچنے کے لیے تیونس کو دبائو میں لایا جائے گا۔ مراکش جو سنہ 1977ء میں اسرائیل اور مصر کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کر چکا ہے اب بھی پیش پیش ہوگا۔ الجزائر اور سوڈان کی حکومتیں اپنا اقتدار بچانے کے لیے شیطان سے بھی مدد کی ضرورت پڑی تو لے سکتی ہیں۔ وہ اقتدار بچانے کے لیے ٹرمپ کی ‘عنایات’ کو قبول کریں گے۔
اردن بھی معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ اس کا منہ بند کرنے کے لیے چند کوڑیاں عمان کو دی جاسکتی ہیں۔ خلیجی ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے مختلف طریقوں سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
عرب ممالک کو عراق اور شام جیسے تنازعات میں بدستور الجھائے رکھا جائے گا تاکہ انہیں صدی کی ڈیل کی طرف دیکھنے کی زیادہ فرصت ہی نہ ملے۔
قطر، ایران اور ترکی کو فلسطینیوں کی مدد بالخصوص غزہ کے عوام کی امداد سے روکا جائے گا۔
صدی کی ڈیل کے ڈرامے کا عالمی پہلو
جہاں تک صدی کی ڈیل کے عالمی پہلو کا تعلق ہے تو اس کے نفاذ میں اقوام متحدہ کو حتی الامکان دور رکھا جائے گا۔
چین اور اسرائیل کے درمیان تعلقات مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ عرب چین تعلقات اسرائیل کے ساتھ معاملات کی راہ ہموار کرسکیں۔ اس ضمن میں امریکا چین پر عاید کردہ بعض پابندیوں میں نرمی کا اعلان کرسکتا ہے۔
مغربی ممالک بالخصوص کینیڈا، ایشیائی ملکوں میں جاپان، اردن، مصر اور لبنان کو بھی صدی کی ڈیل پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
روس کو الجھانے کے لیے شام ہی کافی ہے۔ چنانچہ صدی کی ڈیل کے نفاذ میں اگر روس نے مخالفت کی تو اسے شام کو کم اور درمیانے فاصلے تک دیے گئے میزائلوں پر دبائو میں لا کر منہ بند کرایا جائے گا۔
ولید عبدالحیی کا کہنا ہے کہ آنے والا وقت صدی کی ڈیل کا مقابلہ کرنے کا دور ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدی کی کو اپنی ایک بڑی سیاسی اور سفارتی فتح کے طور پر پیش کریں گے اور اسے امریکا میں اپنا ووٹ بنک بڑھانے اور دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے اسےایک مہرے کے طورپر استعمال کریں گے۔