چهارشنبه 30/آوریل/2025

عمر مختار سے عمر ابو لیلیٰ تک، جہاد استقامت کی ناقابل فراموش داستان!

جمعہ 22-مارچ-2019

‘ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ فتح ونصرت حاصل کریں گے یا جام شہادت نوش کرلیں گے’۔ یہ الفاظ 19 سالہ فلسطینی عمر ابو لیلیٰ شہید کے شہادت سے چند لمحات قبل کے ہیں جو انہوں‌ نے صہیونی دشمن کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ حاصل کرنے سے قبل کہے۔

عمر ابو لیلیٰ نے جو کلمات عزیمت استعمال کیے وہ اس سے قبل لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھے جانے والے مجاھد آزادی عمر مختار نے قابض اطالوی فوج کے سامنے کہے۔ انہوں نے بھی دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے عزیمت کا راستہ اپنایا۔ یہ صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ انہوں نے عملا قابض اطالوی فوج کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد ایک قابض عدالت کے حکم پر سزائے موت کی صورت میں جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے بھی دشمن کے سامنے ہار نہیں مانی۔

اسی طرح فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس سے تعلق رکھنے والے عمر امین یوسف ابو لیلیٰ نے بھی عمر مختار شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دشمن کے خلاف لڑ کر جام شہادت نوش کیا۔ عمرمختار نے بھی ایک قابض اور غاصب فوج کے ساتھ اپنے وطن کے دفاع اور اس کی آزادی کے لیے جان دی اور عمر ابولیلیٰ‌ نے بھی اپنے وطن عزیز فلسطین کی آزادی پرجان قربان کردی۔ دونوں کی شہادت میں بہت سی قدریں مشترک ہیں مگر سب سے ممتاز کرنے والی قدر  ان کا عزیمت کا راستہ اختیار کرنا ہے۔

عمرابو لیلیٰ اپنی شہادت سے قبل اپنے والد کے ہمراہ ان بلاک فیکٹری میں‌ کام کرنے جاتا اور ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ عمر ابولیلیٰ کے دل میں غاصب صہیونیوں کے خلاف لڑنے مرنے کا جذبہ موجزن ہے۔

اب عمر ابو لیلیٰ نہ تو یونیورسٹی جائے گا اور نہ ہی بلاک فیکٹری میں ہوگا بلکہ اس کا نام فلسیطن کے ان بہادر سپوتوں میں‌ لکھا جائے گا جنہوں‌نے فلسطین کی آزادی کے لیے دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے۔

خوش اخلاق اور خاموش

شہید عمر ابو لیلیٰ فلسطین کی القدس اوپن یونیورسٹی میں سال اول کا طالب علم تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے والد کی تعمیراتی مقاصد کے لیے کنکریٹ کے بلاک تیارکرنے والی فیکٹری میں‌ کام کرتا۔ اس کے جاننے والے اسے ایک خوش اخلاق اور کم باتیں کرنے والا نوجوان کہتے۔ 

الزاویہ قصبے کے فلسطینی میئر نعیم شقیر کا کہنا ہے کہ میں عمر ابو لیلیٰ کو جانتا تھا۔ وہ کم گو اور خوش اخلاق نوجوان تھا۔  وہ بہت کم باتیں کرتا مگر ہر ایک سے حسن اخلاق سے پیش آتا۔ اس کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ حتیٰ کہ اس نے کبھی کسی طلباء تنظیم کی سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لیا۔

اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے ‘شاباک’ گذشتہ تین سال کے دوران غرب اردن میں ہونے والے مزاحمتی حملوں کے فدائی فلسطینیوں کے بارے میں یہ کھوج لگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ آیا ان کا کسی فلسطینی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے۔ ایسی بیشتر مزاحمتی کارروائیاں انفرادی تھیں جن کے مزاحمت کاروں کا کسی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

صہیونیوں کے لیے حیران کن

عمر ابو لیلیٰ نے گذشتہ اتوار کو غرب اردن کے شمالی شہر سفلیت میں ‘ارئیل’ یہودی کالونی کے قریب ایک فدائی حملے میں تین یہودیوں کا ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا اور خود بہ حفاظت فرار ہوگیا۔

اس کی عمر صرف انیس سال تھی۔ اس عمر کے افراد کا کسی ایسی کارروائی میں حصہ لینا حیران ہے۔ سو صہیونی بھی اس کی بہادری اور کامیاب مزاحمتی کارروائی پر انگشت بہ دنداں ہیں۔ گذشتہ تین سال کے دوران غرب اردن میں ہونے والے انفرادی مزاحمتی حملوں میں زیادہ تر تک کم عمر فلسطینی ہی شامل رہے ہیں۔

وہ سلفیت میں الزاویہ کے مقاپر واقع اپنے گھر سے نکلا اور ‘ارئیل’ یہودی کالونی کے قریب چلا گیا۔ وہاں پر اس نے چاقو کے حملے اور فائرنگ کرکے تین یہودیوں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کر دیا اور خود فرار ہوگیا۔ صہیونی فوج اسے تین دن تک تلاش کرتی رہی۔ اس دوران وہ چھپتے چھپاتے غرب اردن کے وسطی شہر رام اللہ پہنچ گیا۔ بدھ کے روز صہیونی فوج کی اسپیشل یونٹ کے اہلکاروں نے اس کا پتا چلایا اور اس کا گھیرائو کر لیا۔ دشمن نے اسے ہتھیار پھینکنے اور گرفتاری دینے کا کہا مگر اس نے گرفتار ہونےکے بجائے لڑنے کو ترجیح دی۔

یہاں‌یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس یہودی کالونی میں عمر ابو لیلیٰ نے مزاحمتی کارروائی کی اسے’ارئیل’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سلفیت گورنری میں مجموعی طورپر 24 یہودی کالونیاں اور چار صنعتی زون ہیں۔ دیہی علاقوں میں 18 مقامات پر یہودیوں کے لیے عمارتیں بنائی گئی ہیں۔

ارئیل یہودی کالونی کو غرب اردن میں یہودی نیٹ ورک کا دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ارئیل یونیورسٹی واقع ہے جہاں 20 ہزار یہودی طلباء زیر تعلیم ہیں۔

عمر فدائی حملے کے بعد مسلسل 60 گھنٹے سفر کرتا رہا۔ وہ جہاں جہاں سے گذرتا فلسطین نوجوانوں کو فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد جاری رکھنے کی تلقین کرتا رہا۔

مختصر لنک:

کاپی