کچھ عرصہ قبل مغربی افریقی ملک گھانا میں تجارتی مقاصد کے لیے پہنچنے والے ایک فلسطینی پناہ گزین کو وہاں کے انٹیلی جنس اداروں نے مبینہ طور اغواء کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ اس کی گم شدگی کا معمہ ابھی تک حل نہیں ہوا اور اس کے اہل خانہ اور دیگر احبا مہران بعجور کی زندگی اور صحت وسلامتی کے حوالے سے سخت پریشان ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق مہران مصطفیٰ بعجور کا نام اس وقت عرب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ گردش کر رہا ہے۔
گذشتہ روز لبنان کے دارالحکومت بیروت کے وسط میں قائم گھانا کے سفارت خانے کے سامنے سیکڑوں فلسطینی پناہ گزینوں، سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے احتجاج کیا۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں مصطفیٰ بعجور کے کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر مغوی شہری کی فوری باز یابی یا رہائی کے حوالے سے نعرے درج تھے۔
مظاہرین نے مہران مصطفیٰ بعجور کی تصاویر کے ساتھ ساتھ احتجاجا سیاہ پرچم بھی اٹھا رکھے تھے۔ انہوں نے گھانا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ہاں سے لاپتا ہونے والے فلسطینی پناہ گزین کے بارے میں بتائے کہ اسے کہاں رکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ مہران بعجور کو 2018ء کے آخر میں گھانا میں ایک ہوائی جہاز کے ذریعے پنہچنے کے بعد انٹیلی جنس حکام نے دو دیگر مقامی نوجوانوں سمیت حراست میں لے لیا تھا۔ بعد ازاں مقامی نوجوانوں کو رہا کر دیا گیا مگر مہران بعجور کا کچھ اپتا پتا نہیں۔ اس کے اہل خانہ نے گھانا حکام سے رابطے کی کوشش کی تو انہیں بتایا گیا کہ مہران ان کے پاس نہیں۔ اسے کہیں اور تلاش کیا جائے۔
سنہ 1980ء میں لبنان کے شہر طرابلس میں البداوی فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والے مہران بعجور کے بھائی جہاد بعجورنے بتایا کہ اس کے بھائی کو گھانا انٹیلی جنس ادارے حراست میں لے گئے اور اس کے بعد اس کا کوئی پتا نہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس حکام نے مہران سمیت تین افراد کو گرفتار کیا۔ ان میں سے دو کو چھوڑ دیا گیا۔ رہا ہونے والوں نے تصدیق کی مہران بعجور ان کے ساتھ گرفتار ہوا اور اسے ایک سفید فام شخص نے انگریزی میں پوچھ گچھ کی۔
اس نے مزید کہا کہ گھانا کے انٹیلی جنس حکام دو دیگر شہریوں کو بھی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر لے گئے تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ انہوں نے بھی بعجور کو ایک عدالت میں پیشی کے دوران دیکھا۔ اسے یقینی طور پر انٹیلی جنس داروں کے ہاں قید کیا گیا ہے۔
گھانا حکام مہران مصطفیٰ بعجورکی زیرحراست ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہران بعجور ہمارے پاس نہیں۔ اسے کہیں اور تلاش کر لیا جائے۔
جھاد بعجور کا کہنا ہے کہ گھانا حکام سچ بتانے کے بجائے ان کے ساتھ ٹال مٹول کر رہے ہیں۔
اس نے کہا کہ اگر مہران بعجور پر کوئی الزام ہے تو اس کے اہل خانہ کو بتایا جائے اور اسے عدالت میں پیش کیاجائے مگر ایک ایسا ملک جو جمہوری ہونے کا دعویٰ کرے مگر کسی بے گناہ کو قید وبند میں رکھے تو یہ جمہوریت نہیں انسان دشمنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ کو قید میں رکھنا دہشت گرد تنظیموں کا وتیرہ ہے اور جمہوری ملکوں میں اس طرح کی انسانی حقوق کی پامالیاں نہیں کی جاتیں۔ گھانا حکومت کو چاہیے کہ وہ مہران کو فوری طور پر رہا کرے۔
ادھرگھانا میں فلسطینی اور لبنانی سفیروں کے ذریعے بھی مہران بعجور کی تلاش کے لیے کوششیں شروع کی گئی ہیں تاہم گھانا حکام کی طرف سے انہیں مسلسل عدم تعاون کا سامنا ہے۔