فیس بک کو اپنی تاریخ کی بدترین بندش کا سامنا کرنا پڑا جب بدھ کو اس کی بیشتر مرکزی خدمات دنیا بھر کے صارفین کے لیے معطل رہیں۔
فیس بک کو اس سطح کے تعطل کا سامنا آخری بار سنہ 2008 میں کرنا پڑا تھا جب اس کے ماہانہ صارفین کی تعداد صرف 15 کروڑ تھی، جبکہ اس وقت اس کی صارفین کی تعداد 2.3 ارب ہے۔
فیس بک کی مرکزی سروس کے علاوہ اس کی پیغام رسانی کی ایپ اور تصاویر شیئر کرنے کی سائٹ انسٹاگرام بھی اس بندش سے متاثر ہوئیں۔
اس تعطل کی وجہ کے بارے میں اب تک نہیں بتایا گیا۔
فیس بک نے ایک بیان میں کہا ’ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ کچھ لوگوں کو اس وقت فیس بک کی ایپس کھولنے میں دشواری کا سامنا ہے۔‘
’ہم اس پر کام کر رہے ہیں تاکہ مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جا سکے۔‘
دوسرے سوشل نیٹ ورکس پر جاری چہ مگوئیوں کے بارے میں فیس بک کا کہنا تھا کہ اس تعطل کی وجہ ڈی ڈی او ایس سائبر حملہ نہیں تھی۔ اس طرح کے حملے میں کسی بھی سروس پر ٹریفک کا سیلاب آجاتا ہے، جس سے وہ اوورلوڈ ہو جاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ مسئلہ بدھ کو 16:00 جی ایم ٹی پر شروع ہوا۔
اس دوران فیس بک کی مرکزی سروس میں صارفین کچھ بھی پوسٹ نہیں کر پا رہے تھے۔
جبکہ انسٹاگرام کے صارفین نئے پوسٹ شدہ مواد کو دیکھنے کے لیے اسے ریفریش نہیں کر پا رہے تھے۔ فیس بک کا ڈیسک ٹاپ میسجنر بھی لوڈ نہیں ہو رہا تھا تاہم موبائل ایپ سے پیغامات جا رہے تھے۔
ایک آزاد کمپنی ڈاؤن ڈیٹیکٹرز کے نگرانوں کے مطابق یہ بندش عالمی سطح پر تھی۔ جو دیگر سوشل نیٹ ورکنگ پر صارفین کے لیے پوسٹ ڈال رہے تھے کہ یہ سروس معطل ہے۔
اس بندش کے باعث فیس بک کے دفتر میں بھی معاملات متاثر ہوئے جہاں اندورنی کاروباری رابطوں میں خلل آیا۔
بیونس آئرس میں مقیم ڈیزائنر ریبیکا بروکر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس خلل کی وجہ سے ان کے کام پر بڑا اثر بڑا۔