صہیونی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ مستقبل کو تباہ کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے دیگر جرائم کی ایک تازہ مثال ایک فلسطینی بچہ 14 سالہ محمود عثمان ہے جس کی زندگی اور مستقبل دونوں برباد کردیے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی فوج نے حال ہی میں فلسطینی بچے محمود عثمان کو گولیاںمار کر شدید زخمی کردیا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ شہرکے رہائشی کو گولیاں ماریں جس کےنتیجے میں جگر اور جسم کے دیگر داخلی اعضا بری طرح زخمی ہوگئے۔
عثمان اس وقت شہداء الاقصیٰ اسپتال میں زیرعلاج ہے اور اپنے سہارے حرکت تک نہیں کرسکتا۔ گردن پر لگنے والی گولی نے اس کی گویائی تک چھین لی ہے اور وہ نہ اپنے ملنے والوں بات چیت نہیں کرسکتا۔
جسمانی کم زوری
محمود عثمان صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن کر بری طرح نہ صرف زخمی ہوچکا ہے بلکہ اس کا جسم بری طرح طرح کمزوری کا شکار ہے۔ صہیونی فوج کے گولوں کے چھرے اس کے جسم میں ابھی تک پیوست ہیں جس کی وجہ سے جسم میںتکلیف میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس نے بتایا کہ وہ غزہ کی سرحد پر لگی خار دار باڑ کے قریب تھا جب اسرائیلی فوج کی طرف سے عاید کی گئی گولہ باری سے ایک گولہ ان کے قریب گرا۔ اس کے چھرے اس کے جسم میں پیوست ہوگئے جس کی وجہ سے اس کا جسم نہ صرف زخمی ہے بلکہ شدید تکلیف میں ہے۔
محمود نے کہا کہ صہیونی فوج کی طرف سے اسے نشانہ بنایا جانا حیران کن ہے۔ وہ اسرائیلی فوج سے کئی سو میٹر دور تھا۔یہ پہلا موقع نہیں۔ بے شمار فلسطینیوں کو سرحد کے قریب جمع ہونے پر گولیوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجےمیں وہ شہید اور زخمی ہوچکے۔
اسکول کا خواب
شہداء الاقصیٰ اسپتال میں زیرعلاج محمود عثمان سے اس کے عزیز واقارب اور دوستوں کی ملاقات کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ دیر البلح کے رہائشی محمود کی حالت اب قدرے بہتر ہے مگر اسے اسکول چھن جانے سے محروم ہوگیا۔
اس کے چچا علی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محمود کے سینے میں بائیں جانب سے گولی لگی اور دائیں طرف سے نکل گئی۔ گولیاں لگنے سے تین پسلیاں ٹوٹ چکی ہیں۔
محمود کا کہنا ہے کہ اسے اپنے زخمی ہونے کا درد اپنی جگہ مگر اسکول چھن جانےکا بھی دکھ ہے۔