فلسطینی اتھارٹی نے مقبوضہ مغربی کنارے میں عوام کو کوئی سہولت دی ہو یا نہ مگر ایک عذاب مسلسل وہاں کے عوام جھیل رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سیاسی بنیادوں پر فلسطینیوں کی پکڑ دھکڑ اور انہیں جیلوں میں بندکرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
سیاسی بنیادوں پر پابند سلاسل رہنے والوں میں محمود مصطفیٰ عصیدہ بھی شامل ہیں۔ وہ مسلسل پچھلے نو سال سے بار بار گرفتار کیے جاتے رہے ہیں۔ نو سال کے دوران عصیدہ کو چار سال تک قید میں رکھا گیا۔
حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی نے اسے ایک بار پھر حراست میں لے لیا۔ محمود عصیدہ نابلس کی جامعہ النجاح میں امتحان کے لیے جاتے ہوئے حراست میں لے لیا۔ گرفتاری کے ذریعے عصیدہ کا مستقبل تباہ کرنے کی منظم کوشش کی گئی ہے۔
محمود عصیدہ نے مرکز اطلاعات فلسطین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے سیاسی قیدی کی ماں نے کہا کہ ان کے خاندان کو فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں پر سخت غصہ ہے جو ایک سازش کے تحت ان کے بیٹے کے مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں۔ اسیر کی ماں کا کہنا تھا کہ عباس ملیشیا اور انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے عصیدہ کو اس وقت حراست میں لیا جاتا ہے جب وہ امتحان دے رہا ہوتا ہے۔
اسیر کی ماں کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا مسلسل نو سال سے عباس ملیشیا کی انتقامی کارروائیوں کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ پڑھنے والے طلباء اگلی جماعتوں میں جا چکے ہیں مگر عصیدہ تعلیم میں پیچھے رہ گیا ہے۔
نہ ختم ہونے والی گرفتاری
محمود عصیدہ کی ماں نے کہا کہ اس کے بیٹے کی گرفتاری اب ہر سال کا معمول بن چکی ہے۔ عباس ملیشیا بغیر کسی الزام کے جب چاہتی ہے عصیدہ کو حراست میں لے لیتی ہے۔ اس طرح اس کی گرفتاری کا اب نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
اسیر کی والدہ نے بتایا عصیدہ کو 12 فروری 2014ء کو حراست میں لیا اور مسلسل 20 دن تک پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کے چند روز کے بعد عصیدہ کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا اور قید کے دوران بری طرح مارا پیٹا گیا، نیند سے محروم رکھا گیا اور غیرانسانی ماحول میں پابند سلاسل کیا گیا۔ یہ گرفتاری 100 دن تک جاری رہی۔
اگلے سال 21 مئی 2015ء کو عصیدہ کو دوبارہ حراست میں لیا گیا۔ اسے جنید نامی بدنام زمانہ ٹارچرسیل میں ڈالا گیا جہاں اس پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔ رہائی کے بعد 19 نومبر کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا اور اس پر طلباء سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر 13 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 14 مارچ کو اسے دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ اسے 10 ماہ قید اور 2000 شیکل جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔12 فروری 2018ء کو اسے دوبارہ حراست میں لیا گیا اور 13 دن تک پابند سلاسل رکھا گیا۔11 دسمبر 2018ء کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔
مستقبل برباد کرنے کی مذموم کوشش
محمود عصیدہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کے بیٹے کے مستقبل کو تباہ کرنے پرتلی ہوئی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں نے اس پر فرقہ وارانہ نعروں کو فروغ دینے کا الزام عاید کیا حالانکہ وہ صرف طلباء سرگرمیوں میں مصروف رہا ہے۔ اس پر فرقہ وارنہ سرگرمیوں کا الزام عاید کرنا گمراہ کن اور عصیدہ کے مستقبل کو تباہ کرنے کی مذموم کوشش ہے۔