اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ہائی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں اسرائیل کو غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیے جانے پر فلسطینی عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مسلسل مرتکب ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کی سنگین پامالیاں جاری ہیں۔
فلسطینی دھڑوں نے اپنے بیانات میں اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں 2018ء میں فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں کے دوران میں انسانیت مخالف جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور اس کے ماہر نشانہ بازوں نے واضح شناخت کے باوجود بچوں ، طبی عملہ کے ارکان اور صحافیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہروں کے دوران میں تشدد کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے آزاد کمیشن کے سربراہ سنتیاگو کینٹن نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ "اسرائیلی فوجیوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا تھا۔ ان میں سے بعض خلاف ورزیاں جنگی جرائم یا انسانیت مخالف جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔”
اس تحقیقاتی کمیشن کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے غزہ کی پٹی میں 30 مارچ 2018ء سے 31 دسمبر 2018ء تک پیش آنے والے تشدد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا تھا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کے نشانہ بازوں نے کئی ہفتے تک جاری رہنے والی اس احتجاجی تحریک کے دوران میں چھے ہزار سے زیادہ غیر مسلح فلسطینی مظاہرین کو گولیاں مار کر زخمی کیا تھا۔
بیان کے مطابق :”کمیشن کے پاس یہ یقین کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہیں کہ اسرائیلی اسنائپروں نے صحافیوں، طبی کارکنان، بچّوں اور معذور افراد کو بلا تمیز گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اس نے جانتے بوجھتے ان پر فائرنگ کی تھی حالانکہ ان کی شناخت بالکل واضح تھی۔”
تحقیقات کاروں نے خصوصی طور پر کہا ہے کہ "اسرائیلی فوجیوں نے جان بوجھ کر ان فلسطینیوں کو بھی جان سے مار دیا تھا یا انھیں زخمی کردیا تھا جو نہ تو براہ راست احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے رہے تھے اور نہ ان سے کوئی واضح خطرہ لاحق ہوسکتا تھا۔”
اقوام متحدہ کی ٹیم نے اسرائیل کے ان دعووں کو بھی مسترد کردیا ہے کہ "ان مظاہروں کا مقصد دہشت گردی کی کارروائیوں کی پردہ پوشی کرنا تھا بلکہ یہ مظاہرے واضح طور پر شہری نوعیت کے تھے اور ان کے مقاصد سیاسی تھے۔ تشدد کے بعض واقعات کے باوجود یہ مظاہرے کسی جنگی یا فوجی مہم کا حصہ نہیں تھے۔”
کمیشن نے بتایا ہے کہ اس نے 325 متاثرین، عینی شاہدین یا دوسرے ذرائع کے انٹرویو کیے تھے اور آٹھ ہزار سے دستاویزات کا جائزہ لیا ہے۔ تحقیقات کاروں نے ڈرون کی فوٹیج اور دوسرے صوتی وبصری (آڈیو ویژول ) مواد کا بھی جائزہ لیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیلی حکام نے کمیشن کی جانب سے معلومات فراہم کرنے کے لیے متعدد بار کی درخواستوں پر کوئی جواب نہیں دیا ۔اس نے معلومات کے حصول کے لیے کمیشن کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک رسائی بھی نہیں دی ہے۔”