فلسطین کے ایک ممتاز عالم دین الشیخ محمد صیام گذشتہ روز سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں دماغی عارضے کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ کئی سال تک مسجد اقصیٰ میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ علم دین کا یہ بحر ذخار اب ہم میں نہیںرہا۔ وہ جب تک حیات رہے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ مسجد اقصیٰ کی خدمت میں گذارا۔ جب تک القدس میں تھے مسجد اقصیٰ میں امامت خطابت کی مگر انہیں 30 سال قبل اسرائیل نے ملک بدر کردیا۔ انہوں نے ملک بدری کے دوران مسجد اقصیٰ کے سفیر کے طور پرخدمات انجام دیں۔
ملک بدری
اٹھائیس جولائی 1988ء کو صہیونی ریاست نے الشیخ صیام کو فلسطین اور مسجد اقصیٰ سے بے دخل کردیا۔ وہ قبلہ اول سے محروم ہوگئے مگرانہوںنے اپنے قول وعمل سےقبلہ اول کے دفاع کے لیے اپنی زبان وقلم کا جہاد جاری رکھا۔ وہ جہاںجہاں گئے قبلہ اول کے سفیر بن کر رہے۔
صہیونی ریاست کی طرف سے ان پر اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے ابتدائی پروگرامات میں شرکت اور جماعت کے بیانات کی کتابت کا الزام عاید کیا گیا۔
سنہ 1994ء کو الشیخ محمد صیام سوڈان میں قیام پذیر رہے۔ اس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ یمن آگئے جہاں انہوں نے حماس کے مندوب اور فلسطین رابطہ گروپ کے چیئرمین کے طورپرکام کیا۔ یمن میں کئی سال تک قیام پذیر رہنے کے بعد ان پر وہاںبھی عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو وہ دوبارہ سوڈان چلے گئے۔
شہرت
فلسطینی مورخ اسامہ الاشقر نے الشیخ محمد صیام کے بارے میں بتایا کہ مسجد اقصیٰ سے بے دخلی سے قبل ہی صیام فلسطین اور بیرون ملک مختلف حلقوں میں ان کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ نوجوان ان سے ملنے اور ان سے ہاتھ ملانے کے خواہش مند رہتے۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 1990ء کےاوائل میں میں نے خرطوم میں الشیخ صیام سے ملاقات کی۔ وہ ارکویت اور الطایف کے درمیان مشرقی شاہراہ پرایک خوبصورت مکان میں مقیم تھے۔
خطیب اقصیٰ
الاشقر نے مسجد اقصیٰ کے سابق امام و خطیب الشیخ محمد صیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے خطیب کی نسبت قائم رکھی۔ وہ اپنے مکتوبات میں بھی خود کو مسجد اقصیٰ کا امام اور خطیب بیان کرتے۔
وہ اپنے خطبات میں موضوع کی مناسبت سے برمحل اشعار کا خوب استعمال کرتے اور اپنے سامعین کے جذبات کو خوب گرماتے۔
وہ خود بھی شاعر تھے۔ سنہ 1981ء میں ان کے اشعار کا پہلا مجموعہ ‘دعائم الحق’ سنہ1982ء میں ‘ملحمہ البراعم، 1987ء میں میلاد امۃ،سنہ1990ء میں سقوط الرفاق، اسی سال دیوان الانتفاضہ،2007ء میں زکریات فلسطین، اور سنہ 2008ء میں یوم فی المخابرات عامہ کے عنوان سے کتاب تالیف کی۔