مسجد اقصیٰ کے جلا وطن کیے گئے امام اور خطیب الشیخ محمد صیام گذشتہ روز سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں انتقال کرگئے۔ دوسری جانب فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ نے الشیخ صیام کے انتقام پر گہرے رنجم وغم کا اظہار کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ محمد صیام کو اٹھائیس جولائی 1988ء کو صہیونی ریاست نے فلسطین اور مسجد اقصیٰ سے بے دخل کردیا۔ وہ قبلہ اول سے محروم ہوگئے مگرانہوںنے اپنے قول وعمل سےقبلہ اول کے دفاع کے لیے اپنی زبان وقلم کا جہاد جاری رکھا۔ وہ جہاںجہاں گئے قبلہ اول کے سفیر بن کر رہے۔
صہیونی ریاست کی طرف سے ان پر اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے ابتدائی پروگرامات میں شرکت اور جماعت کے بیانات کی کتابت کا الزام عاید کیا گیا۔
سنہ 1994ء کو الشیخ محمد صیام سوڈان میں قیام پذیر رہے۔ اس کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ یمن آگئے جہاں انہوں نے حماس کے مندوب اور فلسطین رابطہ گروپ کے چیئرمین کے طورپرکام کیا۔ یمن میں کئی سال تک قیام پذیر رہنے کے بعد ان پر وہاںبھی عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو وہ دوبارہ سوڈان چلے گئے اور باقی زندگی وہیں گذاری۔
ادھر اسلامی تحریک مزحمت’حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربرہ اسماعیل ھنیہ نےالشیخ محمد صیام کے انتقال پرگہرے دکھ اور رنجم وغم کا اظہار کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ الشیخ صیام کی وفات سے عالم اسلام ایک جلیل القدر عالم دین سے محروم ہوگیا۔ وہ پوری مسلم امہ کے لیے سرمایہ تھے۔ان کا خلا برسوں میںپر نہیں ہوسکے گا۔ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ الشیخ ڈاکٹر محمد محمود صیام ابو محمود نے پوری زندگی قبلہ اول اور فلسطین کی خدمت میں گذار دی۔ انہوں نے قبلہ اول اور فلسطینیوں کے لیے خدمات کی پاداش میں طویل جلا وطنی کاٹی۔ حماس اور پوری فلسطینی قوم کے ان کے خاندان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔