چهارشنبه 30/آوریل/2025

سعودی ولی عہد خاشقجی کے قاتلوں‌کوتحفظ دے رہے ہیں: امریکی ذرائع ابلاغ

منگل 12-فروری-2019

امریکی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے سعودی عرب پر زور دیا ہے کہ وہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مرکزی ملزم اور سابق شاہی مشیر سعود القحطانی کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے مگر سعودی عرب نے امریکی دبائو مسترد کر دیا ہے۔

اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ اور وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی اور امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ واشنگٹن کی طرف سے ریاض پر خاشقجی قتل کے مرکزی ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے دبائو ڈالا گیا ہے۔

ایک سعودی ذریعے کا کہنا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان برطرف کیے گئے شاہی مشیر سعود القحطانی کے ساتھ رابطے میں ہیں اوران سے مشورہ لیتے ہیں۔ وہ ابھی انہیں شاہی مشیر کا درجہ دیتے ہیں جبکہ امریکی ذریعے نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان خفیہ طور پر سعود القحطانی کو اپنا مشیر بنائے ہوئے ہیں۔

امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد سعود القحطانی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خاشقجی قتل کیس کے حوالے سے عالمی سطح پر دبائو میں کمی آنے کے بعد قحطانی کو دوبارہ ان کے عہدے پر بحال کر دیا جائے گا۔

سعودی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعود القحطانی پر بیرون ملک سفر پر پابندی عاید ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر2018ء کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں دھوکے سے بلا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے عالمی رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
سعودی عرب نے خاشقجی قتل کے حوالے سے کئی بار اپنا موقف بدلا اور اب وہ تسلیم کرچکا ہے کہ یہ کارروائی سعودی خفیہ اداروں کے ‘روگ’ عناصر کی کارستانی تھی جس میں حکومت کا ہاتھ نہیں تاہم عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے آپریشن ولی عہد کے حکم کے بغیر انجام نہیں دیے جاتے۔

سعودی عرب کے پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کا حکم ان سے مذاکرات کے لیے آنے والی ٹیم نے دیا تھا تاہم اس کا نام ظاہر نہیں‌ کیا گیا۔

ترکی نے پانچ دسمبر کو سعودی عرب کے سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف، بن سلمان کے سابق مشیر سعود القحطانی اور دیگر کے خلاف خاشقجی قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں فرد جرم عاید کی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی