حال ہی میں لبنانی فوج نے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں تعمیراتی سامان لے جانے پرپابندی عاید کردی جس کے بعد فلسطینی حلقوں میں تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں کہ لبنانی فوج نے فلسطینی پناہ گزینوں پر تعمیراتی سرگرمیوںپرپابندی عاید کر رکھی ہے بلکہ یہ سلسلہ 22 سال سے جاری ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کی مرمت کے لیے تعمیراتی سامان لے جانے کی خاطر کئی مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے۔ بہت کم فلسطینی طویل جدو جہد کے بعد اپنے بوسیدہ گھروںکی مرمت کے لیے تعمیراتی سامان لے جا سکتے ہیں۔
لبنانی حکام کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے کئی انتقامی حربے استعمال کیے جاتےہیں۔ان میں ان کے حق واپسی اور لبنان میں پناہ گزینوں کو مستقل قیام کی سہولت نہ دینے کا بہانہ شامل ہے۔ فلسطینی پناہ گزین بھی فہم وادراک نہیں رکھتے کہ آیا انہیں لبنانی فوج کے اس ظالمانہ حربے کا حل کیسے نکالنا چاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی بار باراپیلوں کے باوجود انسانی بنیادوں پر بھی فلسطینیوںکو گھروں کی تعمیرو مرمت کی اجازت نہیں دی جاتی۔
جنوری 1997ء کو لبنانی فوج نے فلسطینی پناہ گزینوں پران کے گھروں کی تعمیرو مرمت کے سامان پر پابندی لگائی اور یہ پابندی 2004ء تک جاری رہی۔ صرف چند ماہ کے بعد اس پابندی کا خاتمہ کیا گیا اور ایک بارپھر پابندی عاید کردی گئی۔ اس کے بعد جنوبی لبنان میں قائم پانچ پناہ گزین کیمپوں الرشیدیہ، البصر، البرج الشمالی، المیہ ومیہ، عین الحلوہ اور برج البراجنہ کیمپوں میں کسی قسم کے تعمیراتی سامان لے جانے پر پابندی عاید ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے دیکھ بحال اور وہاں پرکسی قسم کی سرگرمی کی ذمہ داری فوج کو سونپی گئی ہے اور فوج نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں تعمیرات پرپابندی عاید کی جاتی ہے۔
فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں پانی کے پائپوں، بجلی کی تاروں، لکڑی کی کھڑکیوں، آئرن، شیشے، سیمنٹ، ریت، بلاک، ایلومینیم، پانی کی ٹینکیاں اور بجلی کے جنریٹر تک لے جانے پر پابندی عاید ہے۔
لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 12 کیمپوں کی نگرانی اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونروا’ کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ الصور شہر میں بھی فلسطینیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ان پناہ گزین کیمپوں کے داخلی راستے پر لبنانی فوج تعینات ہے اور کیمپوں میں آنے جانے والے پیدل اور گاڑیوں پر سوار شہریوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔
دو سال سے لبنانی فوج نے سیمٹی دیواروں کے ذریعے پناہ گزین کیمپوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ برس عین الحلوہ پناہ گزین کیمپ میں لبنانی فوج نے کنکریٹ کی دیوار کی تعمیر کے ساتھ اونچے اونچے کنٹرول ٹاور تعمیر کرنا شرو ع کردیے ہیں۔
انتقامی حربے
فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اور ان کے حقوق پرنظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کوئی فلسطینیی لبنانی فوج کی اجازت کے بغیر سیمنٹ کا ایک بیگ بھی کیمپوںمیں نہیں لے جاسکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے یا اس کے خلاف کوئی دویگر انتقامی حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
لبنانی وزارت قانون کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کے تعمیراتی سامان کیمپوں کے اندر لے جانے کو ‘اسمگلنگ’ قرار دیا جاتا ہے اور اس پر ایک لاکھ لبنانی لیرہ یا 66 امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے مندوبین کا کہنا ہے کہ لبنان میں فلسطینیی پناہ گزین کیمپوں تعمیرات سامان لے جانے سےروکنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ فلسطینیوں کو تعمیراتی شعبے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ان کے گھر اور مکانات بوسیدہ ہو رہے ہیں اور لبنانی حکومت نسل پرستی کےمترادف اقدامات کرکے فلسطینی پناہ گزینوں کے بنیادی حقوق کا استحصال کررہی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ لبنانی حکام سنہ 1982ء کے بعد سے فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف انتقامی حربے استعمال کرتے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں میں رہنے والوں کو ملازمت اور کاروبار کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔