جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کی جانب سے منگل کے روز ایک دستاویز میں شمالی کوریا کو ’دشمن ملک‘ یا سلامتی کے لیے خطرہ قرار نہیں دیا گیا ہے۔
سن 2010 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جنوبی کوریائی حکومت نے اپنی ایک دستاویز میں شمالی کوریا کو دشمن قرار نہیں دیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سن 2010ء ہی میں جنوبی کوریا کے 50 افراد مارے گئے تھے، جس کا الزام سیول حکومت نے پیونگ یانگ پر عائد کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدگی کی جانب بڑھ گئے تھے۔
جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے وائٹ پیپر میں اس بار ماضی میں شمالی کوریا کے لیے استعمال کی جانے والی ’دشمن‘، ’موجودہ دشمن‘ یا ’مرکزی دشمن‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال نہیں کیا گیا ہے، تاہم اس دستاویز میں شمالی کوریا کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جزیرہ نما کوریا کی سلامتی کے لیے خطرہ ضرور قرار دیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے مراد شمالی کوریا کے میزائل اور جوہری ہتھیار ہیں۔
سیول حکومت کی جانب سے شمالی کوریا کو ’دشمن‘ قرار دینے کی اصطلاح، دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی ایک وجہ رہی ہی۔ شمالی کوریا سیول حکومت کی جانب سے اس اصطلاح کے استعمال کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتا رہا ہے۔
جنوبی کوریا کے لبرل صدر مون جے ان نے گزشتہ برس تین بار شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کی اور اس دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تیزی سے بہتری آتی چلی گئی۔ ان دونوں ممالک کے سیول اولمپکس میں ایک پرچم تلے اپنی ٹیمیں بھیجیں جب کہ کم جونگ ان کے گزشتہ برس جون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی۔