فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ چار بار ملاقات کی۔ صدر عباس کے ساتھ ان کی آخری ملاقات نیویارک میں 2017ء کو ہوئی جس میں امریکی صدر نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کو یقینی بنائیں گے۔
فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ میں نے ٹرمپ سے کہا کہ وہ دو ریاستی حل کے لیے موثر کوشش کریں تو انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ میں فلسطینیوں کی منشاء کے مطابق دو ریاستی حل کی کوشش کروں گا، مگر اس وعدے کے صرف دو ہفتے بعد انہوں نے دھوکہ دیتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا اور امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کا حکم دیا۔
صدر عباس نے کہا کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قبول کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں، اس لیے ہم نے امریکا کا بائیکاٹ کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی ایک طرف امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مشکل حالات سے گزر رہی ہے اور دوسری طرف اسلای تحریک مزاحمت "حماس” کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں۔
صدر عباس نے کہا کہ ہم نے امریکا پر القدس کے بارے میں فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تو وہ اپنے فیصلے پر مصر رہے۔ ان کے اصرار پر ہم نے امریکیوں کے ساتھ رابطے ختم کردیے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی چیز نہیں بچی۔ امریکا نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے مذاکرات کے تمام راستے بند ہوگئے ہیں۔