چهارشنبه 30/آوریل/2025

بیت المقدس کا 2018ء میں ‘یہودیت’ اور آباد کاری کے چیلنج کا مقابلہ

پیر 31-دسمبر-2018

سال 2018ء فلسطین کی تاریخ میں ایک انتہائی خوفناک سال گذرا۔ خاص طورپر مقبوضہ بیت المقدس کو درپیش چیلنجز میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 60 سال میں یہ پہلا موقع ہے جب مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کی طرف سے سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ رواں سال کے دوران صہیونی ریاست نے مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیانےکے لیے تمام حربے استعمال کیے۔

سال 2018ء کےدوران امریکا نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور اس فیصلے نے صہیونی ریاست کو القدس پرقبضہ مستحکم کرنے کا ایک نیاحوصلہ اور ولولہ دیا ہے۔

ٹرمپ کے فیصلوں پرعمل درآمد
مسجد اقصیٰ اور القدس امور کے تجزیہ نگار خالد زبارقہ  نے ‘مرکزاطلاعات فلسطین’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سال 2018ء بیت المقدس کے لیے انتہائی مشکل برسوں میں سے ایک ہے۔ یہ سال القدس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کےامریکی فیصلوں پرعمل درآمد کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا امریکی اعلان القدس کو یہودیانے کی براہ راست سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا امریکی اعلان امریکا کی اسرائیل کے لیے ‘لا محدود’ حمایت کے مترادف ہے۔ امریکی فیصلے فساد در فساد ہیں اور فلسطین میں‌یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کا نیا حربہ ثابت ہوئے ہیں۔

مکانات کی مسماری
سال 2018ء میں‌مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کا سلسلہ جاری رکھا۔ گذشتہ برس نام نہاد الزامات اوردعووئوں کے تحت 145 مکانات مسمار کیے گئے جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی شہری جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے مکان کی چھت سے محروم ہونے کےبعد سڑکوں پرآگئے۔

فلسطین میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مرکز’اوچا’ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2018ء کے دوران صہیونی حکومت نے القدس میں یہودی آباد کاروں کے لیے 5820 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی اور یہودی تنظیموں نے القدس میں فلسطینیوں کے 6 مکانات پرقبضہ کیا۔

مسجد اقصیٰ پردھاوے
ایک سوال کے جواب میں زبارقہ نے کہاکہ سال 2018ء کے دوران صہیونی آباد کاروں کے قبلہ اول پردھاووں کا سلسلہ اپنے عروج پر رہا۔ قبلہ اول کی بے حرمتی کرنے والوں میں  اسرائیلی کنیسٹ کے ارکان، وزراء، انٹیلی جنس اداروں کے افسران،پولیس اہلکار اور یہودی ربی شامل شامل ہیں۔

مسجدا قصیٰ کے ڈائریکٹرعمرا لکسوانی کےمطا2018ء میں 28 ہزار یہودیوں‌نے قبلہ اول کی بے حرمتی کی جب کہ 2017ء میں 26 ہزار یہودی قبلہ اول میں داخل ہوئے تھے۔

فلسطینی تجزیہ نگاروں کے مطابق القدس اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اردن کا کردار مایوس کن رہا ہے۔ اسرائیل بھی یہ چاہتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے انتظامی امور سے اردن دست بردارہوجائے۔

 

مختصر لنک:

کاپی