امریکا کے ایک موقر اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چند ماہ قبل اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر جمع ہونے والے فلسطینی مظاہرین پر گولیاں چلاتے ہوئے ایک نوجوان فلسطینی نرس رزان النجار کو باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شہید کیا تھا۔
امریکی اخبار کے مطابق صہیونی فوج نے فلسطینی نوجوان طبی کارکن رزان النجار کو اس وقت گولیاں ماریں جب وہ زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق النجار اسرائیلی فوج کے لیے کسی بھی طور پر خطرہ نہیں تھیں۔ انہیں جان بوجھ کر گولی کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہ جام شہادت نوش کر گئیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ یم جون کو اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کی سرحد کے قریب فلسطینی مظاہرین کے خیموں پراندھا دھند گولیاں چلائیں۔ اس دوران 22 سالہ رزان النجار کو تاک کر نشانہ بنایا۔ اسے ایک سے زاید گولیاں لگیں جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی تھیں۔
امریکی اخبار کے مطابق فلسطینی نوجوان نرس کو گولی مارنے کے واقعے کی تصویر اور فوٹیج کا ‘تھری ڈی’ ٹیکنالوجی کی مدد سے جائزہ لیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ 30 عینی شاہدین کے بیانات بھی قلم بند کیے۔
تھری ڈی ٹیکنالوجی اور عینی شاہدین کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے رزان النجار کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت باقاعدہ نشانہ بنا کر گولی ماری۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کی طرف سے یہ دعویٰکیا گیا تھا کہ رزان النجار کو مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے چھ بجے سرحدی باڑ سے 40 گز کے فاصلے پر احتجاجی مظاہرین کے ساتھ مظاہرہ کرتے ہوئے گولیاں ماریں۔
امریکی اخبار نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ رزان النجار نے طبی امدادی کارکنوں کی زرد جیکٹ پہن رکھی تھی اور وہ سرحدی باڑ سے 40 گز نہیں بلکہ 140 گز دور تھی۔ اس کے آس پاس کچھ راہ گیر اور دیگر امدادی کارکن بھی تھے اور ان میں سے کوئی بھی احتجاج نہیں کررہا تھا۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر 30 مارچ سے جاری مظاہروں کے دوران 260 فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 60 یا 70 فلسطینی غیر ارادی طورپر قتل کیے گیے، باقی سب کو دانستہ طور پرنشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔