چهارشنبه 30/آوریل/2025

"ایھم صباح”۔۔۔ جس کا بچپن ظالمانہ صہیونی فیصلوں‌نے چھین لیا!

جمعرات 27-دسمبر-2018

اسرائیلی ریاست کی نام نہاد عدلیہ کی طرف سے آئے روز فلسطینی شہریوں کو قید وبند اور بھاری جرمانوں کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کی ایک فوجی عدالت نے فیصلے سے چونکا کر رکھ دیا۔ صہیونی عدالت نے ایک فلسطینی بچے کو 35 سال قید اور ایک ملین شیکل کے برابر جرمانے کی کڑی سزا سنائی۔ سزاپانے والا بچہ ایھم الصباح اس وقت سترہ سال کا ہے جب کہ اسے تین سال قبل 14 سال کی عمر میں حراست میں لیا گیا۔ اس پر مشرقی رام اللہ میں ‘رامی لیوی’ یہودی کالونی میں گھس کر چاقو سےحملے میں ایک اسرائیلی فوجی کو ہلاک کرنے کا الزام عایدکیا جاتا ہے۔

زخمی حالت میں‌ گرفتاری
قابض صہیونی فوجیوں نے یہودی فوجی کے قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں ایھم الصباح اور اس کے ساتھی عمر الریماوی کو گولیاں مار کر شدید زخمی کیا جس کے بعد انہیں زخمی حالت میں حراست میں لے لیا۔ پہلے ان دونوں کی شہادت کی خبر آئی تھی تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ دونوں شدید زخمی ہیں۔

ایھم کے دائیں کندھے اور بائیں ٹانگ پر گولی لگی۔ کندھ پر لگنے والی گولی نے ہاتھوں کی خون کی رنگی کاٹ ڈالیں۔ دوران حراست سرجری کے ذریعے اس کی رگیں جوڑی گئیں۔ اس کی ٹانگ پر لگنے والی لوگی بھی سرجری کے ذریعے نکالی گئی اور اب اس کی حالت قدرے بہتر ہے اور وہ اپنے پائوں کے سہارے چل سکتا ہے۔

ظالمانہ عدالتی فیصلہ
ایھم الصباح کے والد باسم الصباح نے ‘مرکزاطلاعات فلسطین’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی عدالت کا اس کے بیٹے کی سزاکا فیصلہ انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بچے کو اتنی طویل سزا دینے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ اس فیصلے سے صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ صہیونی عدالت کے فیصلے سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ اسرائیل اپنے ظالمانہ قوانین کے ذریعے فلسطینی قوم کو دبانے اور ان کےحقوق غصب کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔

انہوں‌ نے کہا کہ ایھم وہ پہلا فلسطینی بچہ ہے جسے اتنی سخت سزا دی گئی ہے۔ کسی بچے کو 35سال قید کی سزا دینا بذات خود ایک جرم ہے مگر ہم اللہ کے فضل سے مایوس نہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ایھم اور دیگر تمام اسیران صہیونی دشمن کی قیدسے آزادی حاصل کرلیں گے۔

حوصلے بلند ہیں
زخمی اور زیرحراست بیٹے کے ایھم کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کے والد نے کہاکہ ‘ الحمد اللہ میرے بیٹے کے حوصلے بلند ہیں۔ سنہ 2015ء میں‌گرفتاری کے بعد اب تک اس نے صہیونیوں کے سامنے خود کو شکست دل نہیں ہونے دیا۔ ہماری جب بھی ایھم سے ملاقات ہوئی تو اس نے ہمیں حوصلے بلند رکھنے کی تاکید کی۔ ہمیں بھی اس کی بلند ہمتی سے نیا ولولہ ملا ہے۔

اسیر بچے کےوالد نے کہا کہ ایھم کے وکیل نے انہیں بتایا کہ میں کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو ایھم نے ہنس کر میرا استقبال کیا واپسی پرہنس کر اس نے الوداع کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ کسی بچے کو اتنی سخت سزا دینے کا کوئی جواز نہیں۔ اتنی طویل قید اور بھاری جرمانہ صہیونی ریاست کی فلسطینیوں سے نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔

میڈیا کے ذریعے دبائو
ایک سوال کے جواب میں ایھم الصباح کے والد نے کہا کہ صہیونی عدالت کے فیصلے کے بعد فلسطین میں ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے جس جاندار انداز میں اس کے بیٹے کی حمایت کی گئی ہے وہ قاب تحسین ہے۔ تاہم انہوں‌نے عرب ممالک اور عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس کے بیٹے کے معاملے کو انسانی معاملے کے طور پر ڈیل کریں تاکہ صہیونی ریاست کی جیلوں میں قید خواتین اور کم عمر بچوں کی رہائی کے لیے اسرائیل پر دبائو ڈالا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ صہیونی ریاست آزادانہ طورپر بین الاقوامی انسانی حقوق کو پامال کررہی ہے۔ عرب ملکوں اور عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل پر اس کے فیصلوں کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ دبائو نہیں ڈالا جا رہاجب کہ اسرائیلی میڈیا اور یہودی لابی دھڑلے کےساتھ عالمی سطح پر صہیونی ریاست کے موقف کو پذیرائی دینے کی کوشش کررہی ہے۔

مضبوط شخصیت
کم عمر ہونے کے باوجود ایھم الصباح نے کسی قسم کی کمزوری کا تاثر پیدا نہیں ہونے دیا۔ یہ اس کی شخصیت کی مضبوطی کی واضح دلیل ہے۔

حال ہی میں اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چنل 10 نے جیل میں ایھم کا انٹرویو کیا۔ چینل کے نامہ نگار نے پوچھا کہ آپ اپنےکیے پرنادم ہیں تواس نے کہاکہ نہیں میں نے جو کچھ کیا وہ سب ٹھیک کیا ہے۔ میں 20 سال کی عمرکے بعد بھی ایسا ہی سوچوں گا۔

اس نے مزید کہا کہ ہم مزاحمتی نسل ہیں اور ہماری تربیت مزاحمت کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ صہیونی یہ گمان کرتے ہیں کہ مزاحمت ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران مزاحمت کو کچلنے کی پوری کوشش کی۔ ہم بعد میں پیداہونے والے ہیں مگر ہم نے مزاحمت اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ایھم الصباح نے کہا کہ میں یہودیوں کا مخالفت نہیں بلکہ میں صرف فلسطین پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف ہوں۔اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہےکہ میں کیا کررہاتھا۔ اگر میں شہید بھی ہوجاتا تواس سے کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ میں نے شہادت ہی کی نیت سے مزاحمت کا راستہ چنا ہے۔

ایھم الصباح مئی 2001ء کو پیدا ہوا۔ گرفتاری کے وہ اسکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس کے والدین شمالی طولکرم کے قفین قصبے کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنے چار بہن بھائیوں میں‌بڑا ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی